مولانا طارق جمیل سے معذرت کے ساتھ

آپ نے بدکردار مردوں کو کرونا پھیلنے کا موجب بتایا ہوتا تو مولوی صاحب میرے دل میں آپ کی عزت مزید بڑھ گئی ہوتی۔ کیا اسلام محض عورت کے لباس یا عورت کی بےحیائی تک ہی محدود ہو گیا ہے۔

مولانا طارق جمیل کراچی میں معروف نعت خواں جنید جمشید کی نماز جنازہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

محترم مولانا صاحب

آپ کی اس بات پر مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ دنیا بھر کا میڈیا شاید مبالغہ آمیز ہے اور جھوٹ بولنے میں بےانتہا مہارت حاصل کر چکا ہے۔ مجھے اس وقت شدید ذہنی عذاب سے گزرنا پڑا جب آپ کو میڈیا سے اپنی سچی بات کہنے پر معافی مانگنی پڑی۔

میڈیا ہر زمانے میں معاشرے کا آئینہ ہا ہے۔ وہ آج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے جس میں ہم، آپ اور سب رہتے ہیں۔ جب آبادی کا بڑا حصہ جھوٹ، منافقت، بددیانتی اور بدکرداری پر اپنی بنیاد قائم کرتا ہے تو میڈیا ازخود اس کا حصے دار بن جاتا ہے یا اس کو ایسا بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ بعض سولی پر چڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

چونکہ پوری دنیا کی سیاست ہی اب جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہے جس کا احساس دنیا کے ان کروڑوں عوام کو ہے جن سے حکومتیں ان کی زندگی، ان کا ذریعہ معاش، ان کی زمینں اور جائیداد سے چھین لیتی ہیں۔ جب میڈیا اس کو ڈاکہ زنی کی بجائے قومی مفادات قرار دیتا ہے تو اس کو جھوٹا کہنا حق بجانب ہے۔
جب میڈیا کو چند اشتہارات، چند سکوں اور چند مراعات کی خاطر بدکردار، بددیانت اور  غدار حکمرانوں کو غازی یا شہید قرار دینا پڑتا ہے تو میڈیا خود ایک بڑا فراڈ بن جاتا ہے۔

جب مختلف قوموں کو حراستی مراکز میں قید کر کے ان کو زندگی کے  بنیادی حق سے محروم کیا جاتا ہے اور میڈیا اس کو ’قیام امن عامہ‘ کی کارروائی قرار دیتا ہے تو میڈیا سب سے بڑا چور اور میڈیا میں کام کرنے والے یقینا چکاری بن جاتے ہیں۔
جب دارالحکومتوں کی گلیوں میں رات کے اندھیروں میں نوجوانوں اور شیرخورؤں کو ذبح کر کے دلدل میں پھینک دیا جاتا ہے اور میڈیا اس کو ’اکثریت‘ کا حق جتاتا ہے تو میڈیا سب سے بڑا قاتل بن جاتا ہے۔
جب گولیوں اور بارود سے بھاگنے والے ہزاروں بچے سمندر کے ساحل پر پہنچ کر زندگی کی آخری جنگ بھی ہار جاتے ہیں اور میڈیا ان کو ’دہشت گرد یا غیرقانونی تارکین وطن‘ کا لیبل چسپاں کرتا ہے تو میڈیا خود ایک بڑا دہشت گرد بن جاتا ہے۔
جب کس ملک کا حکمران عوام کو وائرس مارنے والی دوائی کھانے کی ترغیب دیتا ہے اور میڈیا اس کا جواز پیش کر کے عوام میں اس کے حق میں سوچ پیدا کرتا ہے تو میڈیا کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک وائرس بن جاتا ہے۔
آپ نے جو بات کہی وہ نوم چومسکی نے تقریباً ایک دہائی قبل کہی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ میڈیا کے ادارے ’سوچ پیدا کرنے کے کارخانے‘ بن چکے ہیں تو ان پر بھی تنقید کے میزائل داغے گئے تھے لیکن وہ چونکہ مولوی نہیں ہیں لہذا انہیں کسی قوم سے معافی نہیں مانگنی پڑی بلکہ وہ دنیا کے کروڑوں عوام کے ہر دلعزیز شخصیت بن گئے ہیں۔ ان کے مضامین کا انتظار ان کے مداحوں کو عید کے چاند کے مانند رہتا ہے۔ موجودہ دور میں مولوی صاحبان کتنی ہی موزوں بات بتائیں وہ کبھی ہر دلعزیز نہیں بنتے خاص طور سے مسلمان ان کو پسند نہیں کرتے۔ وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں آپ کو یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتی ہوں کہ میڈیا میں ایسے اکا دکا لوگ اب بھی موجود ہیں جو سچ بولنا چاہتے ہیں، سچ بولتے ہیں معاشرے کا آئینہ بن کر باطل سے لڑنا چاہتے ہیں لیکن وہ سچ بولتے بولتے یا تو زندانوں کی زینت بن جاتے ہیں یا انہیں بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے یا ان کی سڑی ہوئی لاشیں گندگی کے ڈھیر سے ملتی ہیں۔
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ میں بھارت سے کئی اور مثالیں پیش کر سکتی ہوں جہاں سچ بولنے والے صحافیوں کے قتل پر کوئی چیں بھی نہیں کر پایا۔ پاکستان کے بارے میں آپ سے زیادہ کون جانتا ہے جو اپنی قوم کا نباض ہیں۔ وہاں ایسے صحافیوں کی تعداد کم نہیں جنہوں نے انتہائی مشکلات اوردھونس دباو کے باوجود اپنے پیشے سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور شاید انہی چند صحافیوں کی وجہ سے عوام کا اعتماد اب بھی برقرار ہے اور شاید دنیا  کا وجود بھی۔

میڈیا میں رہنے کے باوجود میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ مگرجھوٹ کا یہ زہر حکومتوں کی ہی دین ہے اور اب میڈیا میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ اس کا اثر زائل کرنے میں صدیاں درکار ہیں۔ کاش میں کھل کر کہتی کہ حکومتیں قوموں کو ذلیل کرنے میں کتنی حدیں پار کرتی ہیں اور میڈیا کو زیر کرنے میں کتنے حربے اپناتی ہیں۔
مجھے اگر اعتراض ہے تو اس بات پر جو آپ نے عورتوں کے بارے میں کلمات کہے ہیں وہ غیرشائستہ اور غیرمہذب ہیں۔ آپ نے بھی قدرتی آفات کو عورت کے لباس میں بند کر کے اسلام کی وسعتوں کو محدود کیا ہے۔
میرا خیال تھا کہ آپ پیغمبر اسلام کی مثالیں دے کر اپنی بات منوانے کے ماہر ہیں اور سنجیدہ موضوعات کو خندہ پیشانی سے بتانے کے قائل ہیں جس کی وجہ سے ہی مجھے بھی آپ کے خطبات سننے کا اشتیاق رہتا ہے۔

میں نے اکثر یہ محسوس کیا کہ آپ واحد مولوی ہیں جو حدیث کی تشریح کے دوران مسکراتے بھی ہیں ورنہ بیشتر صاحبان کے چہروں پر ہم نے رعونت ہی دیکھی ہے۔ پھر آپ کا ان موضوعات پر بات کرنا بہت مناسب بھی لگتا ہے جن کو ہمارے معاشرے میں ’شجر ممنوعہ‘ سمجھا جاتا رہا ہے اور زندگی کی کتاب سے یکسر خارج کر دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچپن سے یہ خوف بٹھایا گیا تھا کہ مولوی صاحب صرف خوف پیدا کرنے کے لیے درس دیتے ہیں بلکہ آپ کو سن کر پہلی بار احساس ہوا کہ مولوی صاحب زندگی میں خوف کم کرنے کا درس بھی دیتے ہیں۔
  ہمارے پیغمبر نے جو عزت عورتوں کو دی اور جو مقام انہیں عطا کیا اور عورتوں سے ان کا طرز تعلق، ان کا پیش آنا اور خاص طور سے ان عورتوں کے ساتھ ان کا خوش کلام جو راستے سے بھٹک گئی ہوتی تھیں، آپ نے ان سب باتوں کو کیسے فراموش کیا اور دل آزاری کا ایسا بیان نشر کیا کہ لوگ سوچ میں پڑ گئے کہ کروڑوں عوام کو صحیح راہ دکھانے والے مولوی صاحب یہ کیا کہہ رہیں ہیں۔
میرے محترم طارق صاحب،  اصلاح گھر سے شروع ہوتی ہے اور ان افراد سے جنہیں ہمارا معاشرہ گھر کا سربراہ کہتا ہے اور جو پاکستان میں تقریباً گیارہ کروڑ ہیں۔
کاش آپ نے ایک ذمہ دار عالم دین کی طرح ان گیارہ کروڑ کی اصلاح کی ہوتی جن میں اکثر عورتوں کو اپنا جسم بیچنے پر مجبور کرتے ہیں، ان بدکردار اشخاص سے سوال کیا ہوتا جو عورتوں کی عصمتیں لوٹ رہے ہیں، ان مذہبی ٹھیکداروں کو ٹوکتے جو نہ صرف معصوم بچیوں کو بلکہ معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

آپ نے بدکردار مردوں کو کرونا پھیلنے کا موجب بتایا ہوتا تو مولوی صاحب میرے دل میں آپ کی عزت مزید بڑھ گئی ہوتی۔ کیا اسلام محض عورت کے لباس یا عورت کی بےحیائی تک ہی محدود ہو گیا ہے اور کیا دنیا کی بربادی کا ضامن صرف عورت ہے جو آپ کو جنم دیتی ہے؟
آپ نے بھی دوسرے ان پڑھ مولویوں کی طرح کرونا وائرس کو  عورتوں کے کھاتےمیں ڈالنے کی زحمت کی، کسی قدرتی آفت کو بدکردار مردوں کے کھاتے میں بھی ڈال دیتے۔
معاشرے کا سدھار یا بگاڑ صرف عورت کے ذمے ہی نہیں ہوتا بلکہ پہلے اس معاشرے کے مردوں پر ہے۔ آپ اتنی ناانصافی تو نا کریں۔۔۔۔۔اگر دنیا میں اب  بھی زندہ رہنے کی کوئی گنجائش موجود ہے تو وہ صرف شاید عورت کی وجہ سے ہے۔

مجھے افسوس اس بات پر نہیں کہ آپ نے کرونا کے خاتمے کے لیے کی جانے والی دعا میں ’عورت کے لباس‘ پر بےشمار آنسو بہائے، بیشتر مولویوں کا جمعہ خطبہ بھی اس موضوع پر مرکوز ہوتا ہے بلکہ افسوس اس بات پر ہے کہ میں نے زندگی کے بیشتر قیمتی لمحات آپ کے خطبات سننے پر صرف کئے ہیں اور اب اس مخمصے کا شکار ہوں کہ کیا مجھ میں اب بھی آپ کو سننے کا حوصلہ باقی رہ گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ