’مولانا طارق جمیل سے یہ امید نہ تھی‘

مجھے یاد نہیں کہ مولانا صاحب نے ماسوائے حاکم وقت کی شان بیان کرنے کے آج تک کسی مظلوم کے حق اور ظالم طاقتور کے خلاف کچھ بولا ہو؟

ناچیز ذاتی طور پر مولانا طارق جمیل سے بہت زیادہ متاثر تھا لیکن اب سے اعتبار اٹھ گیا۔

وزیر اعظم عمران خان اور متعدد ٹی وی اینکرز کے علاوہ سماجی کارکن اور معروف عالم دین مولانا طارق جمیل گذشتہ روز احساس ٹیلی تھون پروگرام میں شامل تھے۔ آغاز اور نیت اچھی تھی لیکن اختتام متنازع ہوگیا۔

اس پروگرام کو پاکستان کے تمام چینلز نے براہ راست دکھایا لیکن ٹیلی تھون کے آخر میں مولانا نے فرمایا کہ ’ہم بہت زیادہ جھوٹی قوم ہیں اور ناصرف ہمارا بلکہ دنیا بھر کا میڈیا جھوٹا ہے۔‘

اس کے علاوہ انہوں نے ایک چینل مالک والا واقعہ دہرایا کہ ’میری ایک ٹیلی ویژن چینل کے مالک سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا مولانا صاحب کوئی نصیحت فرمائیں جس پر میں نے انہیں کہا کہ اپنے چینل پر جھوٹ ختم کر دیں، جس کے جواب میں انہوں نے کہا اگر چینل سے جھوٹ بند کر دوں تو پھر چینل بند ہو جائے گا۔‘

تاہم مولانا طارق جمیل نے اس مرتبہ بھی اس چینل کے مالک کا نام نہیں بتایا اور پھر وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے، دیانت دار کہتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے زمین آسمان ایک کر دیا۔

اسی شام سینیئر صحافی حامد میر نے اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں مولانا طارق جمیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میڈیا سے متعلق ایسی بات کی جس سے غلط فہمیاں بڑھ سکتی ہیں۔ انہوں نے مولانا طارق جمیل سے درخواست کی کہ آئندہ جب کبھی ایسی بات کریں تو نام ضرور لیا کریں کیونکہ سب لوگوں سے متعلق غلط فہمی پھیلانا بھی صحیح نہیں۔

حامد میر نے مزید کہا کہ مولانا صاحب ماضی میں حکمرانوں سے متعلق جو باتیں کرتے تھے آج کل وہی کچھ عمران خان کے بارے میں کہہ رہے ہیں اور کیونکہ مولانا نے میڈیا سے متعلق ایسی بات کی تو اس پر جواب دینا ان کا بھی حق ہے اور جہاں تک جھوٹ کی بات ہے بالکل جو بھی میڈیا پر جھوٹ بولتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہو اور اب ٹیلی ویژن چینل کے مالک کا نام بتانا مولانا صاحب پر واجب ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا طارق سے منسوب ایک ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ: ‏’وزیراعظم کے پروگرام ’احساس ٹیلی تھون‘ میں گفتگو کے دوران جھوٹ اور بے حیائی کے تذکرے سے مقصود ان مہلک امراض سے اجتناب کی طرف اشارہ تھا نہ کے کسی فرد واحد یا شعبے کی دل آزاری، جو سچ اور حیا کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالي ان کے طفیل ہماری اس مشکل گھڑی کو عافیت سے مبدّل فرمائیں اور آخر میں ‏اگر میری گفتگو سے کسی فرد یا شعبے کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔‘

ناچیز ذاتی طور پر مولانا طارق جمیل سے بہت زیادہ متاثر تھا لیکن اب سے اعتبار اٹھ گیا کیونکہ مجھے ان سے ایسی امید نہ تھی کہ وہ اس حد تک جا سکتے ہیں کہ بادشاہ کی دربار میں کلمہ حق کہنے کی بجائے ان کی تعریف کے پہاڑ کھڑے کر دیں اور پوری قوم اور مظلوم عوام کے لیے ہر دور کے ظالم حکمرانوں کے خلاف علل اعلان حق کہنے والے ابلاغ عامہ کو جھوٹا اور قوم کو بےحیا کہیں۔

مجھے یاد نہیں کہ مولانا صاحب نے ماسوائے حاکم وقت کی شان بیان کرنے کے آج تک کسی مظلوم کے حق اور ظالم طاقت ور کے خلاف کچھ کہا ہو؟ اس وقت طارق جمیل سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہیں اور ان کے حامیوں کے پاس دفاع کرنے کے لیے دلیل نہیں۔

‏دبئی میں ارباب غلام رحیم نے ایک بار سنایا تھا کہ کس طرح وزیراعلیٰ سندھ کی حیثیت سے انہوں نے مولانا طارق جمیل کی جنرل مشرف سے ملاقات کروائی تھی۔

معروف صحافی عمر چیمہ لکھتے ہیں کہ ’‏مولانا طارق جمیل جیسے مولانا کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ، غاصب کو للکارو، معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں پر بات کرو، ٹیکس ادا کرو یہ بس ’ہمارے اعمال کی سزا ہے۔‘ جیسا مبہم فقرہ دہراتے رہیں گے۔ ‏دنیا کا سب سے مشکل کام معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف جہاد کرنا ہے۔

‏آخر میں اتنا کہوں گا مجھے مولانا طارق جمیل سے یہ امید نہیں تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ