وبا کے دنوں میں پہاڑوں پر بولتی ہوئی خاموشیاں

مارگلہ کے ٹریل پر کتوں کی ایک جوڑی سے موجودہ اور سابقہ صورتِ حال پر فلسفیانہ تبادلۂ خیال۔

دو لوگ لاک ڈاؤن کے دنوں میں ماسک پہنے مرگلہ پہاڑ کے ایک ہائیکنگ ٹریل پر جا رہے ہیں (اے ایف پی)

رفیق حسین نے اپنے افسانے ’کلوا‘ میں ایک کتے کے درد کو زبان دی ہے۔ اسی افسانے کا ایک جملہ پڑھ کر آنکھ کچھ دیر کو جھپکنا بھول جاتی ہے۔ لکھتے ہیں، جانور کو وجدان دیا گیا ہے جس میں غلطی کا کوئی احتمال ہی نہیں اور ہمیں عقل، جو ہر قدم پر ٹھوکر کھا جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن کا فیصلہ ہوا تو مرگلہ کے پہاڑوں کے گرد بھی باڑ کھینچ دی گئی۔ جانے انتطامیہ کو یہ بات پھر کیسے سمجھ آئی کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں اجتماعات ہوتے ہیں اور نہ ہی کندھے سے کندھا ملا کر قافلے چلتے ہیں۔ نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور پھاٹک اٹھا دیے گئے۔

جب پابندی تھی تو درختوں سے کچنار توڑنے والے دوچار لوگ موجود ہوتے تھے۔ آج پابندی نہیں تھی تو کتوں کی اٹھکیلیاں کرتی ہوئی ایک خوبصورت جوڑی کے سوا یہاں کچھ نہیں تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی جوڑی ایسے لپکی جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔

لپٹ چمٹ کر گہری آنکھوں والے کتے نے کہا، کہاں رہ گئے تھے تم لوگ یار، ہمیں فکر ہو گئی تھی کہ کہیں میونسپلیٹی والے تو اٹھا کر نہیں لے گئے اور زہر دے کر انہوں نے مار تو نہیں دیا؟

میں نے کرونا (کورونا) اور لاک ڈاؤن کا ماجرا سنایا تو جوڑی اداس ہو گئی۔ بے باک آنکھوں والی چُلبل کتیا بولی، ’اچھا میں بھی سوچوں یہ چکر کیا ہے کہ انسان مقید ہیں اور سنگ و خشت آزاد پڑے ہیں۔‘

کتے نے گرہ لگاتے ہوئے کہا، ’ویسے سچ تو یہی ہے کہ انسانوں کے علاوہ اس دنیا میں سبھی خوش ہیں۔ ہوائیں مست ہیں، فضائیں چُست ہیں، پانی صاف ہے، آلودگی نہیں ہے اور ہماری راجدھانی میں ہمی پر ہُش ہُش کرنے والی کوئی بیرونی طاقت بھی نہیں ہے۔‘  

حال احوال کر کے ہم نے پہاڑوں کا رُخ کیا تو جوڑی ساتھ چل پڑی۔ کچنار کے پھولوں سے بھری جنگل کی پہلی راہداری عبور کی تو تین راستے ہمارے سامنے تھے۔ ہمیں دائیں راستے پر جانا تھا مگر ایک جنگلی بلی نے ہمارا راستہ کاٹ دیا۔ عدنان پاشا کی تجویز پر ہم سیدھے راستے پر چل پڑے۔ کتوں کی جوڑی نے کچھ دیر ہمیں دیکھا اور بائیں راستے پر نکل گئی۔

بیچ راستے پہنچ کر ایاز نے آواز دی، جس راستے پر ہم جا رہے ہیں یہ دراصل نالہ ہے۔ بڑے بڑے پتھر اور اُن پر جمی کھائی ایاز کی بات کی تصدیق کررہی تھی مگر اب آگے بڑھتے رہنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ دوسری طرف پہنچے تو ہانپتی ہوئی جوڑی پہلے سے وہاں زبانیں لٹکائے کھڑی تھی۔

ہمیں گرتا پڑتا دیکھ کر کتے نے کہا، سیدھے راستے اور ٹھیک راستے میں ایک فرق ہوتا ہے۔ کُتیا نے کہا، اِنہیں چھوڑو، یہ تو منہ اٹھا کے ہمیشہ سیدھے راستے پر ہی جائیں گے۔ ٹھیک راستے کی انہیں توفیق ہوتی تو یہ انسان ہی کیوں کہلاتے؟

پہاڑ چڑھنے لگے تو علی احمد جان نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کا موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے اسے میڈیا اور انسانی حقوق کا عنوان دیا اور بات آگے بڑھا دی۔ عائشہ تنظیم نے مصرع اٹھایا اور اپنے صحافتی تجربے و مشاہدے کی روشنی میں بھرپور غزل کہہ دی۔ غزل ابھی جاری تھی کہ آسمان گرجنے لگا۔ بارش کی موٹی موٹی بوندوں، مٹی کی سوندھی خوشبو، ٹھنڈی ہواؤں کی سرسراہٹ اور کوئلوں کی کوک نے ماحول میں خوشی اور اداسی کے ملے جلے رنگ بھردیے۔

عدنان پاشا اور علی احمد جان معمول کے راستے سے ہٹ کر ایک مختلف سمت میں نکل گئے۔ عائشہ تنظیم، ایاز اور میں ایک سنگم پر کھڑے ہوکر سر کھجانے لگے۔ جائیں تو جائیں کہاں۔ سمجھے گا کون یہاں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے اٹکل پہ وہ راستہ پکڑا جو ایاز کو سمجھ آیا۔ جھاڑی دار راستے سے ہوتے ہوئے ایک موڑ پر پہنچے تو جوڑی وہاں اکڑوں بیٹھ کر ہمارا راستہ دیکھ رہی تھی۔ کتیا نے ہنستے ہوئے جملہ اچھالا، ’پتہ تھا گھوم پھر کے یہیں آؤ گے۔‘ میں نے گٹھڑی اور لاٹھی ایک طرف رکھی اور جوڑی کے ساتھ بیٹھ گیا۔

میں نے پوچھا، ’تم لوگوں کا راستہ ہی ہر بار ٹھیک کیوں نکلتا ہے؟‘ کتا گاؤں کے کسی دانا بزرگ کی طرح گویا ہوا، ’جنگلوں اور پہاڑوں میں اگر رستہ سجھائی نہ دے اور ایسے میں ایک راستے پر انسان اور دوسرے پر گدھا جا رہا ہو تو گدھے والا راستہ لے لینا چاہیے انسان والا چھوڑ دینا چاہیے۔‘

میں نے ترنت کہا، ’لیکن تم گدھے تو نہیں ہو۔‘ ذہین ماتھے والی کُتیا آنکھیں گھما کے بولی، ’لیکن ہم انسان بھی تو نہیں ہیں۔‘

میں نے پانی کے لگاتار گھونٹ بھرے اور بوتل ایک طرف رکھ دی۔ اتنے میں علی احمد جان سر پیٹتے ہوئے نمودار ہو گئے۔ ہانپتے ہوئے بولے، ’یار کس پاگل کتے نے کاٹا تھا جو میں پاشا کے پیچھے پیچھے غلط راستے پر نکل گیا۔‘

کُتیا نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کہا، ’تو باقیوں کو کیا کسی انسان نے کاٹ لیا تھا جو ہمارے پیچھے پیچھے ٹھیک راستے پر نکل آئے؟‘

ہم اٹھے، کمر کسی اور قدم لینے ہی لگے کہ کُتیا نے پہلے میرے پاؤں روکے اور پھر بوتل پر منہ مارتے ہوئے کہا، ’اپنی یہ انسانیت یہاں سے اٹھاتے جاؤ۔ پلاسٹک کے اس ایندھن نے ہمارے پہاڑ کو بھی آگ کا گولہ بنا کے رکھ دیا ہے۔‘

بازوؤں کو چھیل دینے والے خاردار راستے سے ہوتے ہوئے ہم ٹریل فور کی چوٹی پر آ گئے۔ نیچے شہر میں دن کا وقت شام کے منظر میں ڈھلا ہوا تھا۔ سامنے ہری بھری پہاڑی کی اوٹ سے فیصل مسجد کے بھیگے ہوئے مینار جھانک رہے تھے۔ سب کو بیک وقت ایک ہی فکر نے گھیرلیا کہ یہ جوڑی یہاں تک خدا کی رضا کے لیے تو نہیں آئی۔ اسے ضرور کوئی ہڈی روٹی چاہیے ہو گی اور ہمارے پاس سوائے پانی کے کچھ نہیں ہے۔ ہم اٹھے اور ٹریل سِکس کے راستے سے نیچے اترنے لگے۔

جوڑی میرے ساتھ دور تک خاموشی سے چلتی رہی۔ میں نے پوچھ ہی لیا، ’تم لوگ ہمارے ساتھ اوپر تک آئے اور اس بارش میں اب واپس نیچے جا رہے ہو، آخر کیوں؟‘

کتے نے کہا، ’تمہیں کیا لگتا ہے؟‘

’مجھے جو بھی لگتا ہو مگر ایک بات بتا دوں کہ ہم لوگوں کے پاس دینے دلانے کو کچھ نہیں ہے۔‘

اس سے پہلے کہ کتا کچھ کہتا کافی دور سے کُتیا نے پلٹ کر کہا، ’کر دی نا انسانوں والی بات؟‘

’میں نے کچھ غلط کہا کیا؟‘

’تم لوگوں کا تو مسئلہ ہی ہڈی ہے۔ اسی پر لڑتے ہو اور اسی پر مرتے ہو۔ ہڈی ڈال دو تو اپنے قبیلے تک کو بھول جاتے ہو۔‘

کتے کے چلتے قدم اچانک رک گئے۔ بولا، ’کیا تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ پچھلے ستر سالوں سے تمہارے قبیلے کے سردار ہم لوگ ہیں؟‘

کُتیا نے کتے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’تمہارے آگے تو اٹھنی چونی پھینک دو تو اپنے ہی لوگوں میں موت کی خیرات بانٹنے لگ جاتے ہو۔ ٹھیک ہے یہ سب ہمارے ہاں بھی ہوتا ہوگا مگر ہمارے ہاں اسے لڑائی جھگڑا اور شِکار کہتے ہیں، جہاد اور قتال نہیں کہتے۔ اور پھر آپس میں بیٹھ کر ہم سب سے پاک پوِتر مخلوق ہونے کے خالی پیلی دعوے بھی نہیں کرتے۔ آئے بڑے، ہونہہ!‘

کُتیا ناک بھوں چڑھاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ کتے نے میری خجالت مٹانے کے لیے بات بدل دی۔ بولا، ’سنا ہے نیچے بستی میں عرفان خان اور رشی کپور نام کے دو لوگ وفات پا گئے ہیں؟ بڑے فن کار تھے بہت دکھ ہوا ان کے مرنے پر۔‘

یہ سُن کر کُتیا پھر سے بیچ میں کود گئی۔ بولی، ’عارف وزیر اور ساجد حسین کا بھی دکھ ہوا کہ نہیں؟‘

بمشکل اپنے اوسان پر قابو رکھتے ہوئے میں نے کہا، ’ان کے مرنے پر بھی دل بہت رویا۔‘

دُم لچکا کر بولی، ’مرنے پر یا مارے جانے پر؟‘

’مر جائے یا مار دیا جائے بات تو ایک ہی ہے۔‘

میرا جواب سن کر کتے نے وہی سنجیدہ سے لہجے میں کہا، ’ہم نے نوٹ کیا ہے کہ مرنے والوں میں اور مار دیے جانے والوں میں ایک فرق ہوتا ہے۔ مرنے والوں کے لیے تم بھرے بازار میں روتے ہو، جو مار دیے جاتے ہیں اُن کا رونا تم دل میں روتے ہو۔ کُتیا نے پھر سے بات کاٹی اور بولی، اس لیے کہ تم لوگ پھٹو ہو پھٹو۔ ڈرتے ہو تم لوگ۔‘

کتے نے فوراً کُتیا کو جھڑک دیا۔ بات کو شائستگی سے بڑھاتے ہوئے بولا، ’بات ڈرنے ورنے کی نہیں ہے۔ بات تو ساری یہ ہے کہ ساجد اور عارف کو مارنے والے کون تھے۔ پھر جن سے تم ڈرتے ہو وہ کون ہیں۔‘

میں تیز تیز چلنے لگا کہ یہ بلائیں کسی طرح سے ٹل جائیں۔ جھاڑیوں میں پہنچ کر پیچھے دیکھا تو جوڑی غائب تھی۔ اطمینان سے برگد کے ایک بوڑھے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔

سوچوں میں گم تھا کہ جوڑی سامنے جھاڑیوں سے تیر کی طرح نکلی اور ناک کے نیچے آکر بیٹھ گئی۔ کتے نے خاصی جستجو کے ساتھ پوچھا، ’سنا ہے تمہاری بستی میں کچھ انسان رہتے ہیں جنہیں تم لوگ اپنی طرح کا انسان نہیں سمجھتے۔ میں نے بھی پوری سنجیدگی سے کہا، ’اُن انسانوں کے کچھ مسئلے ہیں اس لیے ہم انہیں اپنے جیسا انسان نہیں مان سکتے۔‘

کُتیا نے میرا جملہ اُچکتے ہوئے کہا، ’مسئلے تو ہمارے ہاں بھی بہت ہوتے ہیں لیکن ماں قسم ہم نے کسی کتے کو کبھی کتا ماننے سے انکار نہیں کیا۔ ہم گالم گفتار میں ایک دوسرے کو انسان کا بچہ ضرور کہہ دیتے ہیں، مگر آپس میں ہم اتنا فرق بھی نہیں کرتے جتنا تم پالے ہوئے کتے اور رکھے ہوئے ملازم میں کرتے ہو۔‘

کُتیا کی بے باکیاں اب ناقابلِ برداشت ہو رہی تھیں۔ میں کچھ کہے بغیر اٹھ کے چل دیا۔ مجھے لگا کہ کتا میری ناراضی بھانپ چکا ہے اور مجھ سے معذرت کر کے کُتیا کی سرزنش کرے گا۔ خلافِ توقع اُس نے کہا، ’کُتیا کی بات بری لگی ہوگی لیکن بات اس کی ٹھیک ہے۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ تم بہت سارے انسان مل کر کچھ انسانوں کو کتا بھی قرار دے سکتے ہو۔‘

کُتیا پیچھے سے بولی، ’اور پھر ان تھوڑے سے انسانوں کو یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ تمہں اب بھونکنا پڑے گا کیونکہ ہم سب نے مل کر تمہیں کتا قرار دیا ہوا ہے۔‘

میں نے مڑ کے دیکھا تو کُتیا بے نیازی سے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے ایسے چلی آ رہی تھی جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔

اپنا غصہ دباتے ہوئے میں ایک چٹان پر بیٹھ گیا اور نیچے پوش علاقے کی سنسان گلیوں میں گم ہو گیا۔ کتے نے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا، ’ہم روز ہی یہاں بیٹھ کر سامنے والی بستی میں مزے مزے کے تماشے دیکھتے ہیں۔ وہ دور گندگی کا جو ڈھیر ہے، یہ انسان ہی روز ہمارے احاطے میں پھینک کر جاتے ہیں۔ یہ نیچے والی سڑک پر شام کے بعد کوئی عورت باہر نکلے تو کتا ساتھ لے کر نکلتی ہے۔ یہ سیکھے ہوئے کتے ہوتے ہیں۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ انسان کو انسانوں سے کیسے بچانا ہے۔ جس عورت کے پاس کُتا نہ ہو اس نے کسی انسان کو ساتھ لیا ہوا ہوتا ہے۔

’سامنے والے گھروں میں ایک گھر ایسا نہیں ملے گا جس کے باہر کچھ انسان بندوق لے کر نہ بیٹھے ہوں۔ شاید ہی کوئی دیوار ایسی نظر آئے جس پر خاردار تاریں نہ بچھی ہوں۔ کچرے کے ڈھیر سے کچھ فاصلے پر جو چبوترا ہے یہاں پانی کی سبیل لگی ہوئی ہے۔ اس میں دو گلاس رکھے ہیں اور دونوں ہی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں۔ سبیل کی سیدھ میں پیالے جیسی چھت والا گھر نظر آ رہا ہے؟ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ اس گھر کا دروازہ اکثر کھلا کیوں رہتا ہے۔ پتہ چلا یہ خدا کا گھر ہے۔ اب ظاہر ہے خدا سے سب ڈرتے ہیں اسے تو دروازہ بند کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک دن ہم گھومتے گھامتے اس گھر کے اندر چلے گئے۔ یہ دیکھ کر ہم دنگ ہی رہ گئے کہ وہاں بھی لوٹے زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ اندازہ ہوا کہ خدا بھی انسانوں کا ستایا ہوا ہے۔‘

انسانوں کی بستی کی طرف دیکھتے ہوئے کُتیا نے کہا، ’حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ انسان ایسے ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے انسانوں کے ہوتے ہوئے تو رحمت کے فرشتے گھر آجاتے ہیں، ہمارے ہوتے ہوئے نہیں آتے۔‘

یہ پہلا جملہ تھا جو کہتے ہوئے کُتیا کی آنکھوں میں شوخی نہیں تھی، اداسی تھی۔

شام گہری ہونے لگی تھی اور لہجوں میں اب درد اترنے لگا تھا۔ میں نے بہتر جانا کہ اٹھا جائے اور اپنی راہ لی جائے۔ کچنار کے پھولوں سے بھری جنگل کی راہداری سے پارکنگ کی طرف نکلتے ہوئے جوڑی نے مڑ کر آخری نظر ڈالی اور بھاگ کر سامنے کی اندھیری جھاڑیوں میں کہیں گم ہو گئی۔

باقی دوستوں کے انتظار میں چہلتے پہلتے ایک بورڈ پر میری نظر پڑ گئی۔ جلی حروف میں لکھا تھا، ٹریل پر خطرناک جانور لے جانا منع ہے، مثلا کتا وغیرہ۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ