وبا کے دن اور مکان نمبر پانچ

'یقیناً اقبال وہ دیوانے نہیں ہیں جو دوچار ملاقاتوں میں کھل کے سامنے آجائیں۔ جتنے کھلے، اس پر رب کا شکر ادا کریں گے۔ کوئی کسر رہ گئی تو زیادہ پریشان نہیں ہوں گے۔ مکان نمبر پانچ میں ہی کرشن چندر بھی موجود ہیں۔'

اقبال تو اپنا حقہ اٹھاتے، کرشن چندر کو ساتھ لیتے اور لنگوٹ سمیٹ کے پائیں باغ میں بیٹھ جاتے۔ کسی کو اپنے بیچ تیسرا ہونے کی اجازت ہر گز نہ دیتے۔ مشتاق یوسفی کے لیے البتہ کچھ گنجائش ضرور نکال لیتے۔ (تصاویر: سوشل میڈیا)

انڈپینڈنٹ اردو میں گذشتہ ہفتے ایک نقشہ شائع ہوا۔ ایک ہی گلی میں پانچ مکان ہیں۔ ہر گھر میں سات نامور شعرا، ادیب اور نقاد بیٹھے ہیں۔ نقشے پر ایک سوال درج ہے۔ موقع ملے تو ان میں سے کس گھر میں قرنطینہ گزارنا چاہیں گے، اور کیوں چاہیں گے؟

جی میں آیا کہ مختلف گھروں سے میر، سودا، غلام عباس، قرۃ العین حیدر، میرا جی، میر انیس، فہمیدہ ریاض، مرزا ہادی رسوا، ن م راشد اور مجید اختر کو ایک طرف کرکے اپنا الگ سے ایک گھر بسا لوں، لیکن زیادہ پھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔حد میں رہتے ہوئے  ہم مکان نمبر پانچ کی طرف چل پڑے ہیں۔یہاں اقبال، کرشن چندر، مرزا ہادی رسوا، اختر الایمان، مشتاق یوسفی، وارث علوی اور فہمیدہ ریاض مقیم ہیں۔اس گھر میں دلچسپی کی وجہ دو لوگ ہیں۔ مرزا ہادی رسوا اور حضرتِ اقبال۔

مکان نمبر پانچ پر دستک دے تو دی ہے، اچانک خیال یہ آگیا ہے کہ اس گھر کے افراد سے بھی کسی نے پوچھ لیا ہوتا کہ تم خود بھی آپس میں رہنا چاہتے ہو کہ نہیں؟ اول تو یہ ایک چھت کے نیچے رہ نہیں سکتے، رہ بھی لیے تو ایک ساتھ بیٹھ نہیں سکتے۔ اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر ہم خیال دوستوں کے وٹس ایپ گروپ میں اٹھکیلیاں کرتے رہیں گے یا پھر سوشل میڈیا پر وبائی شاعری پوسٹ کرتے رہیں گے۔ کھانا پینا بھی ایک میز پر کرنے کی بجائے اپنے اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا کریں گے۔

اقبال تو اپنا حقہ اٹھاتے، کرشن چندر کو ساتھ لیتے اور لنگوٹ سمیٹ کے پائیں باغ میں بیٹھ جاتے۔ کسی کو اپنے بیچ تیسرا ہونے کی اجازت ہر گز نہ دیتے۔ مشتاق یوسفی کے لیے البتہ کچھ گنجائش ضرور نکال لیتے۔ یوسفی صاحب تو 'نہ خندہ رہا نہ کوئی خندہ نواز' اور 'شوہرِ نامدار کو اور بھی نامدار کر' جیسی تضمینیں سنا کر اس گنجائش کو مستقل ٹھکانے میں بھی بدل سکتے تھے۔

مرزا ہادی رسوا تو شاید ہی کسی کو اس لائق سمجھتے کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر فنی مغز ماریاں کی جائیں۔ آزاد نظمیں تو انہوں نے عبدالحلیم شرر کی بھی نہیں سنیں، نقادوں کو پہلے بھی کبھی خاطر میں نہیں لائے، فکشن کو قابلِ فخر کام نہیں سمجھا، اقبال کا فسلفیانہ حوالہ وہ کیسے ہضم کرسکتے تھے۔

فہمیدہ ریاض صبح کی پہلی سگریٹ پھونکتے ہی اس حیرت کدے سے نکلنے کی کرتیں، مگر اختر الایمان کو دیکھ کر شاید رک جاتیں کہ زود رنج لوگوں کے بیچ اس مرنجا مرنج کی کیسے گزرے گی۔ یا ممکن تھا کہ اخترالایمان بھی حلوہ پوری کے بہانے منہ اندھیرے گھر سے نکلتے اور پلٹ کر واپس نہ آتے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلتا کہ وہ مکان نمبر تین میں میرا جی سے مہمان نوازی کا پرانا حساب برابر کر رہے ہیں۔    

وارث علوی اتنے سارے شکار ایک ساتھ دیکھتے ہی اپنے قلم پر رندا پھیرتے۔ اپنے بے باک قلم کو سچائی کے زہر میں کچھ دیر ڈبو کے رکھتے اور پھر باری باری سارے آرٹسٹوں پر تکبیر پڑھتے چلے جاتے۔

کرشن چندر کے ساتھ تو وہی سلوک کرتے جو منیر نیازی احمد ندیم قاسمی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔وارث علوی کو تو خدا نے پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ لوگ فکشن لکھتے رہیں اور وہ بے رحمی سے انہیں تنقید کے بھاڑ میں جھونکتے رہیں۔ ان کا بس چلتا تو منتظم کو کہلوا بھیجتے کہ جاؤ مکان نمبر ایک سے عینی آپا، دو سے راجندر سنگھ بیدی، تین سے عبداللہ حسین اور چار سے پریم چند کو اٹھاکر میری کھولی میں لے آؤ۔ فرصت کے دن ہیں، رج کے میں ان پر اپنا سفاک ہنر آزماؤں۔   

وہ قہر بن کر مرزا ہادی رسوا کے کمرے میں بھی جاتے، گرج برس کر کہتے، ہاں میاں! تمہیں کیا لگتا ہے تم نے بہت بڑے ناول لکھ مارے ہیں کیا؟ مرزا اطمینان سے لیٹے لیٹے کہتے کہ بڑے تو شاید نہیں ہیں مگر بھاری بہت ہیں۔ اچھا تو کتنے بھاری ہیں؟ اتنے تو ہیں کہ اگر آٹھ روپے کلو کے حساب سے ردی والے کو بیچ دیے جائیں تو میرا اور آپ کا لاک ڈاؤن سکون سے گزرجائے۔ تمہیں لگتا ہے کہ یہ مخول کرکے تم تنقید سے بچ جاوگے؟ ہرگز نہیں صاحب، ضرور کیجیے۔ جب تک تنقید پر ٹیکس نہیں لگا خوب تنقید کیجیے۔

مرزا ہادی رسوا اپنے ناولوں اور خاص طور سے لازوال ناول 'امراؤ جان ادا' کی وجہ سے پہچانے گئے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اسے فلمایا گیا اور بیسیوں تھیٹر ہوئے۔ مظفر علی نے ہدایت کاری تو فلم امر ہوگئی۔ اخلاق محمد خان شہریار کے گیت، کیا کہنے۔ آشابھوسلے کی گلوکاری، میں صدقے۔ ریکھا کا رقص، میں قربان۔

 مرزا صاحب ناول نگاری کو علمی مقام و مرتبے سے نیچے کا قصہ سمجھتے تھے۔ قلمی نام کے پیچھے خود کو چھپالیا تھا۔ کسی کو علم نہ ہو پائے کہ یہ بے مصرف کام میں نے کیا ہے۔ ناول لکھتے تو نظر ثانی کی زحمت بھی نہ کرتے۔ شائع ہونے کے بعد ناول ہر ہُما شُما کے پاس ہوتا۔ نہ ہوتا تو خود مرزا صاحب کے پاس نہ ہوتا۔ لوگ سراہ رہے ہیں یا مسترد کر رہے ہیں، کوئی فکر نہیں ہے۔فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ خریدار آرہے ہیں یا نہیں۔ ناول کے دام مل رہے ہیں کہ نہیں۔اسی واسطے وہ ناول نگاری کرتے تھے۔ ناول نگاری کا یہ واحد فائدہ تھا جسے وہ دل سے تسلیم کرتے تھے۔

مرزا ہفت زبان عالم تھے۔فلسفہ، سائنس، نفسیات اور فلکیات ان کا اصل میدان تھا۔ مگر اس میدان میں بھی توپ چلانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ گھر پر تجربہ گاہ بنارکھی تھی۔ سائنسی تجربوں سے جی بہلاتے تھے۔ایک کام شروع کرتے، چھوڑ کر دوسرے میں لگ جاتے تھے۔ پورا کام وہی کیا جس کا محنتانہ ملا۔ پیسے ملے تو چیزیں خریدیں اور تجربہ گاہ میں ڈال دیں۔

خلیق ابراہیم خلیق کی آپ بیتی ضرور پڑھیے۔ لکھتے ہیں، اردو ٹائپ کا پہلا کی بورڈ ایسے ہی ہنستے کھیلتے مرزا ہادی رسوا نے تخلیق کرلیا تھا۔ اردو شارٹ ہینڈ (اشاراتی تحریر) بھی انہی کی ایجاد ہے۔ فلسفہ اور سائنس والا مرزا ناولوں کے غبار میں کہیں گم ہوگیا ہے۔ گھر ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے گمشدہ مرزا کو بازیاب کیا جاسکتا ہے۔ قرنطینہ بھی سہولت سے کسی ایسے ہی گھر میں کاٹا جاسکتا ہے جس میں سائنسی آلات سے مزین پر اسرار سی تجربہ گاہ موجود ہو۔ اسی لیے مکان نمبر پانچ کا ہم نے انتخاب کرلیا ہے۔    

سچی بات تو یہ ہے کہ ادیب، لکھاری، شاعر یا کسی بھی آرٹسٹ کے محض فن کی قدر کرنی چاہیے۔ فن کے ساتھ شخصیت میں بھی دلچسپی ہو تو پھر اتنے ہی فاصلے سے اسے دیکھنا چاہیے جس فاصلے  سے لاک ڈاؤن میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ مشتاق یوسفی صاحب لکھاری اور (خاتون) قاری کے بیچ کتاب بھر کا فاصلہ تجویز کرتے ہیں، مگر یہ فاصلہ کم از کم بھی اُتنا ہونا چاہیے جتنا ماہرین نے کرونا کی وبا میں انسانوں کے بیچ تجویز کیا ہے۔ جس طرح دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں، فنکار بھی دور سے ہی اچھے دکھتے ہیں۔دور سے ہی بس دریا دریا لگتا ہے۔ ڈوب کے دیکھو کتنا پیاسا لگتا ہے۔

فنکار کے فن نے آپ کو جس سحر میں جکڑا ہوتا ہے، ممکن ہے کہ قریب جانے پر وہ سحر دھواں ہوجائے۔اس کے لفظ اور بول میں دھنک کے جو رنگ ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں بھی نظر آتے ہوں۔ یہ جان کر بھی آپ کو مایوسی ہوسکتی ہے کہ لفظوں میں خود کو سجانے والا شخص خود اپنے کہے اور لکھے سے کتنا دور ہے۔ پھر یہ ضروری بھی نہیں کہ فنکار کے روپ کے یہ سارے درشن جھوٹے بھی ہوں۔ یہ معمول کی دنیا جینے والے اور غیر معمولی احساس کے ساتھ جینے والے شخص کے زاویہ نگاہ کا فرق بھی ہوسکتا ہے۔ ہم جسے تہذیب سمجھتے ہیں وہ ایک فنکار کے لیے منافقت ہوسکتی ہے۔ جسے ہم کردار کی پختگی کہتے ہیں، ممکن ہے وہ ایک فنکار کے لیے تکلف اور زحمت کے سوا کچھ نہ ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثلاً: ہمارے ہاں اقبال کا جب خاکہ پیش کیا جاتا ہے تو ان پر انسان کا گمان کم کسی فرشتے یا پیغمبر کا گمان زیادہ ہوتا ہے۔ان کے واقعات انسان کی فطری زندگی کا حوالہ کم اور کسی فلم یا ناول کا منظر زیادہ لگتے ہیں۔ اقبال اگر صوم وصلوۃ کے پابند نہیں تھے تو اس میں حرج والی کیا بات ہے؟ مسلم مفکر اگر خوشبو کی طرح زندگی کی پذیرائی کرتا ہے تو مایوسی کی اس میں کیا بات ہے؟ لسی کوئی نمکین پیے یا میٹھی پیے اس سے کردار پر کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک خاتون نے دو نوجوانوں کی طرف اشارہ کرکے اپنی پیر بہن سے کہا، یہ دونوں پیر صاحب کے بیٹے ہیں۔دوسری خاتون کو حیرت کا جھٹکا لگا، بے ساختہ بولی: 'ہائے اللہ پیر صاحب بھی؟' لاحول ہے بھئی!  

اقبال بھی ہمارے پیر بابا ہیں۔ان کی ذاتی زندگی کے جتنے خاکے ذہنوں پر نقش کیے گئے ہیں ان میں انسانی حوالے کم ہی ملتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے اقبال ہمہ وقت ایک فکرمند پوز بناکر کرسی پر براجمان رہتے ہوں گے، بھوک لگتی ہوگی تو مصرعے کھالیتے ہوں گے، پیاس لگتی ہوگی تو ملت کی فکر پی لیتے ہوں گے اور جب تھک جاتے ہوں گے تو آزادی کے خواب بچھاکر سوجاتے ہوں گے۔

اقبال چونکہ اشعار میں قرآن فہمی پر بہت زور دیتے تھے تو ہم نے اقبال کا خاکہ کچھ یوں بنایا کہ ہمہ وقت گھر میں وہ کلامِ پاک کی تلاوت ہی کیے جارہے ہیں۔ کسی آیتِ وعید پر پہنچتے ہیں تو زار وقطار رو پڑتے ہیں۔ اتنا روتے ہیں کہ قرآن مجید ان کے آنسوؤں سے تر ہوجاتا ہے۔اس تصویر میں نہ تو کہیں علامہ اقبال لنگوٹ پہنے نظرآتے ہیں اور نہ ہی پیچوان اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اقبال بھی اپنے ہم وطن فیض کی طرح آدمی ہی تھے۔ کبھی عشق کرتے تھے اور کبھی کام کرتے تھے۔ رنگ و بو، عشق ومستی، دکھ درد اور خواہش و خطا کا سیدھا سادہ مجموعہ تھے۔

 یہی اقبال تھے جو کرشن چندر ہم تک پہنچانا چاہتے تھے۔ جامعہ پنجاب میں پی ایچ ڈی کے لیے انہوں نے درخواست بھی دے دی تھی، مگر بے دردی سے مسترد ہوگئی۔ یہ کہہ کر مسترد کی گئی کہ اقبال پر بہت لوگ گھسیٹا کاری کرچکے ہیں، آپ کون سی راکھ کھریدنے نکلے ہیں۔ کہا، میں اقبال کو فطری طور پر ترقی پسند شاعر سمجھتا ہوں، یہی میں اپنی پی ایچ ڈی میں واضح کرنا چاہتا ہوں۔

 اب بھلا کوئی کرشن چندر کی آنکھ سے اقبال کو دیکھنے کی اجازت کیسے دے دے۔ سیاسی نظریات کے فرق کے ساتھ اقبال کے مداح بھی تو ابوالکلام آزاد کے مداحوں جیسے ہی ہیں۔ جسے لوگ شورش کاشمیری کی آنکھ سے تو دیکھنا چاہتے ہیں مگر عبدالرزاق ملیح آبادی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔اقبال کو تو کرشن چندر کی آنکھ سے اس لیے بھی نہیں دیکھا جاسکتا کہ اقبال شاعر یا عالم ہی نہیں ہیں، قومی مفاد کا لازمی سوال بھی ہیں۔

اب ظاہر ہے اس اقبال سے قرطبہ کی جامع مسجد میں تو نہیں ملا جاسکتا۔ ان سے تو قرنطینہ جیسی خلوتوں میں ہی ملا جاسکتا ہے۔ یقیناً اقبال وہ دیوانے نہیں ہیں جو دوچار ملاقاتوں میں کھل کے سامنے آجائیں۔ جتنے کھلے، اس پر رب کا شکر ادا کریں گے۔ کوئی کسر رہ گئی تو زیادہ پریشان نہیں ہوں گے۔ مکان نمبر پانچ میں ہی کرشن چندر بھی موجود ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ