جنوبی وزیرستان: قبیلے سے باہر زمین فروخت کرنے والے بھائیوں کے گھر نذر آتش

 خوجل خیل قبیلے کے ایک جرگے نے کچھ عرصہ پہلے متفقہ طور پر  فیصلہ کیا تھا کہ اپنے قبیلے سے باہر زمین فروخت کرنے والوں کے گھروں کو جلا دیا جائے گا۔

خوجل خیل قبیلے کے ایک جرگے نے کچھ عرصہ پہلے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی اپنے قبیلے سے باہر زمین فروخت نہیں کرے گا اور اگر کسی نے ایسا کیا تو ان کے گھر وں کو جلا دیا جائے گا۔فائل  تصویر: اے ایف پی

پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں جرگے کے حکم پر قومی لشکر نے اپنے قبیلے سے باہر زمین فروخت کرنے کے جرم میں سزا کے طور پر دو بھائیوں کے گھروں کو آگ لگا دی۔

مقامی پولیٹکل انتظامیہ کے مطابق سینئر صحافی حفیظ اللہ اور ان کے بھائی سیف اللہ خوجل خیل وزیر نے چند ماہ قبل اپنے قبیلے سے باہر پیر محمد کرے خیل وزیر نامی ایک شخص کو مہنگے داموں اپنی ذاتی زمین فروخت کی تھی، جس پر قومی لشکر نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں بھائیوں حفیظ اللہ اور سیف اللہ کے گھروں کو آگ لگا کر جلا دیا۔

خوجل خیل قبیلے کے ایک جرگے نے کچھ عرصہ پہلے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی اپنے قبیلے سے باہر زمین فروخت نہیں کرے گا اور اگر کسی نے ایسا کیا تو ان کے گھر کو جلا دیا جائے گا۔

گزشتہ دو روز سے وزیر گرینڈ جرگہ سمیت قبائلی عمائدین، علما کرام اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بھر پور کوشش کی، لیکن ان کی کاوشیں رنگ نہ لا سکیں۔

عینی شاہدین کے مطابق قومی لشکر کے سینکڑوں رضا کار حفیظ اللہ اور سیف اللہ کے گھر پہنچے، بچوں اور خواتین کو گھروں سے باہر نکل دیا اور پھر تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔

حفیظ اللہ کے مطابق گھروں میں دو کروڑ روپے مالیت کا قیمتی سامان بھی جل کر خاکستر ہوگیا جبکہ گھروں کو نذرِ آتش کرنے کے دوران ضلعی انتظامیہ بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے قبیلے کے قومی لشکر نے قبیلے کے اندر آدھے کنال زمین کی قیمت پچاس ہزار مقرر کر رکھی ہے، جبکہ قبیلے سے باہر اسی زمین کی قیمت دو لاکھ 70 ہزار تھی۔

حفیظ اللہ کے بھائی سیف اللہ نے بتایا کہ انہوں نے عدالت میں باقاعدہ رِٹ بھی دائر کر رکھی تھی، لیکن خوجل خیل جرگے نے عدالت کا پاس نہ رکھتے ہوئے روایتی لشکر کشی کرکے ان کے گھروں کو مسمار کردیا جو آئین و قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے حکومت اور عدالت سے اس کا سخت نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔

اس حوالے سے جب وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق پاکستانی سفیر ایاز وزیر سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں فی الوقت حکومت پاکستان کی جانب سے بنایا گیا کوئی قانون رائج نہیں ہے۔ انگریزوں کے دور کا کالا قانون ایف سی آر 25ویں ترمیم کے بعد ختم ہوگیا تھا جبکہ بعدازاں حکومت پاکستان کی جانب سے لاگو کیے گئے عبوری ریگولیشن کو پشاور ہائیکورٹ نے ’آئین کی روح کے منافی‘ قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اصولاً یہاں خیبرپختونخوا کے قوانین لاگو ہونے چاہئیں، لیکن نہ تو یہاں عدالتیں ہیں اور نہ ہی یہاں کی زمین حکومت کے ریکارڈ میں ہے، یہی وجہ ہے کہ قبائلی لوگ اپنے قوانین کے تحت کام چلاتے ہیں اور جرگے کے فیصلوں پر عمل کیا جاتا ہے اور نہ ماننے والوں کو جرمانے اور سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے خوجل خیل قومی لشکر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے اور لیویز اور ایف سی کے دستے متاثرہ علاقے میں موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان