وزیرستان: کلاچ خان کی المناک داستان

وزیرستان کے ایک خاندان کی داستان جس میں جائیداد کے لیے بھائی نے بھائی کا قتل کر ڈالا اور وہی روایت اس کے بیٹے نے بھی قائم رکھی۔

’خیئی‘، ’چیغہ‘، ’ٹینگا‘ اور ’باسکیری‘ یقیناً ایسے الفاظ ہے جن کو شاید ہماری نئی نسل نے سنا ہو مگر ان کے معنی سے واقف نہ ہوں۔ سولہ سال پہلے وزیرستان میں پیش آنے والے ایک ظلم بھرے واقعہ کی وجہ سے یہ پرانے زمانے کے الفاظ آج بھی جانے جاتے ہیں۔

اس واقعہ کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ان الفاظ پر غور کر لیتے ہیں۔ ’خیئی‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن یا کوئی بھی کسی آدمی کا خاندان مکمل قتل کر دے اور اس کی نسل کا کوئی مرد بھی زندہ نہ بچے جو اس کے نسل کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے۔

’چیغہ‘ قبائلی اور خاص کر محسود روایات قوم، قبیلہ یا شاخ کے مشترکہ مفاد کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا۔ خاص کر پہلے وقتوں میں جب وزیر اور محسود قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے مال موشی ہانک کر لے جاتے تھے۔ اس وقت بھیڑ، بکریوں کے بڑے بڑے رویڑ ہوا کرتے تھے۔ جب وزیر لوگ یا محسود لوگ ایک دوسرے کے مال، موشی یا اونٹ ہانک کر لے جاتے تھے تو جس قوم کے ریوڑ ہانک کر لے جائے گئے ہوتے تھے وہ اپنے لوگ دوسرے قبیلے کے پیچھے بھیجتے تھے۔  

’چیغہ‘ تب بھی کہا جاتا تھا جب کوئی کسی کے ساتھ زبردستی کرتا یا کسی قبیلے کے ساتھ ظلم کیا جاتا تھا تو متاثرہ قبیلے، شاخ یا خیل کے لوگ ادھر بھاگ کر ظالم کے خلاف پہنچ جاتے تھے۔ جب ظالم بھاگ کر چلا جاتا، تو متاثرہ افراد ظالم کا گھر نذر آتش کرتے، اس کو بھی چیغہ کہا جاتا تھا۔

اسی طرح ’باسکیری‘ تب کہا جاتا تھا اگر کوئی شخص کسی کا قتل کر کے کسی ایسی جگہ پناہ لے لے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتا ہو اور جہاں مقتول کے خاندان والے بدلے کے لیے نہ پہنچ سکیں۔ مگر پھر اسی جگہ کے کسی فرد کی مدد لے کر قاتل کو قتل کروا دیں تو جس نے قاتل کو مارا یا اسے قتل کرنے میں مدد کی ہو، جس کا قاتل کے ساتھ کوئی ظاہری معاملہ نہ ہو اس کو باسکار کہا جاتا ہے، کہ اس شخص نے اس کی باسکری کی۔

باسکری تب بھی استعمال ہوتا ہے جب کسی کے درمیان اختلافات ہوں اور بیچ میں کوئی تیسرا فرد جو ایک فریق کے ساتھ تعلقات اچھے اور دوسرے کے ساتھ بغث رکھتا ہو، تو یہ تیسرا شخص دونوں کے مابین اس حد تک حالات خراب کرتا ہے کہ ایک دوسرے کو قتل کی نوبت آئے تو بیچ میں تیسرے فرد نے جو رول ادا کیا اور جس کے ساتھ وہ عداوت رکھتا تھا اگر قتل ہو جائے تو یہ تیسرا شخص باسکار ہوگا جس نے باسکری کا کردار ادا کیا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ٹینگا‘: قبائل میں اور خیلوں میں امن کے لیے قوم کے مشران، سرداران  جرگے کے ذمہ داران ایک امن ماہدہ کرتے ہیں۔ اگر کسی خیلوں میں، قبیلے اور شاخ میں کوئی معاملہ یا تنازع ہو اور اس کا فیصلہ کرنے کے بعد امن قائم رکھنے کے لیے ایک معاہدہ ہو تو اسے ٹینگا کہا جاتا ہے۔ اگر کسی نے کسی کے ساتھ زیادتی یا فیصلے کی خلاف ورزی کی تو اس کا گھر نذر آتش کیا جاتا ہے یا اس کو علاقہ بدر کیا جاتا ہے۔ اِس امن ماہدہ کو ٹینگا کہتے ہیں۔

کلاج خان کی داستان

یہاں پر آج وزیرستان میں ظلم پر مبنی 2004 میں ہونے والی ایک ایسی کہانی کا ذکر کر رہی ہوں جس میں اوپر بیان کیے ہوئے سب الفاظ کے مطلب واضح نظر آتے ہیں۔ یہ واقعہ سراروغہ گاؤں ساگاڑ میں رونما ہوا۔ اس کے  بارے میں تفصیل یوں ہے۔

مالک اور ظاہر شاہ سگے بھائی تھے اور جنوبی وزیرستان علاقہ شوال میں رہائش پذیر تھے جہاں ان کی اپنی زمینیں تھی اور آرام سے زندگی گزار رہے تھے۔ مالک جوکہ ظاہر شاہ کی محنت اور قابلیت سے کافی جلتا تھا، اس نے ایک دن سوچا کہ اگر ظاہر شاہ اسی طرح محنت کرتا رہا تو یہ مجھ سے بہت آگے نکل جائے گا۔

ظاہر شاہ کا اس وقت ایک بیٹا تھا اور مالک نے سوچا کہ ابھی وقت ہے کہ ظاہر شاہ کو قتل کردیا جائے کیونکہ اگر اس کو چھوڑ دیا تو اس کا خاندان مزید بڑھ جائے گا۔ لہذا مالک نے ظاہر شاہ کو 1972 میں قتل کردیا اور خود زمینوں پر قابض ہوگیا۔ ظاہر شاہ کی بیوی چونکہ جوان تھی تو اس نے اپنے بھائیوں کے کہنے پر اس شرط پر دوسری شادی کی کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے دو سال کے بیٹے کلاچ خان کو بھی قبول کرے۔

ظاہر شاہ کی بیوہ نے دوسری شادی جنوبی وزیرستان کے علاقے کوٹکئی میں کی جو کہ شوال سے کئی کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے اور اپنے بیٹے کلاچ خان کو بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ مالک بھی یہی چاہتا تھا کہ ظاہر شاہ کا یہاں پر کوئی وارث نہ رہے۔

وقت گزرتا گیا اور کلاچ خان جوان ہوگیا۔ کلاچ خان کو اس کے ماموں نے بحرین بلا کر پولیس میں نوکری دلوا دی اور وہیں پر کلاچ خان کی شادی بھی کروا دی گئی۔ بحرین میں 16 سال گزارنے کے بعد کلاچ خان کو اپنے وطن کی مٹی کی یاد ستانے لگی اور اس نے واپس اپنے آبائی علاقے ضلع وزیرستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔

لوگوں نے اسے واپس آنے سے منع کیا کہ وزیرستان جانا آپ کے لیے صحیح نہیں لیکن کلاچ خان اپنے علاقے اور مٹی کی خوشبو سونگھنے کے لیے بے تاب تھا لہذا اپنے آبائی علاقہ شوال کو چھوڑ کر سراروغہ ساگاڑ میں گھر بنانے کا ارادہ کرلیا۔ چونکہ شوال میں سکول ہسپتال اور دوسری سہولیات نہیں ہیں اور اس کے مقابلے میں سراروغہ بہتر علاقہ ہے  تو کلاچ خان نے انا، ضد، دشمنی کو پس پشت ڈال کر وزیرستان میں اپنے لیے ایک خوبصورت پکا مکان بنوایا جوکہ وزیرستان میں اس وقت بہت پیارا تھا اور کلاچ خان نے کافی محنت اور خرچہ کر کے بنوایا تھا۔

کلاچ خان کا مکان 18 دسمبر 2002 کو تعمیر ہوا اور وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر وزیرستان میں رہنے لگا۔ اس نے اپنے چار بچوں کو وہاں وزیرستان کی سب سے اچھے تعلیمی ادارے محب چلڈرن اکیڈمی میں داخل کروا دیا۔

کلاچ خان کا چچا ذاد بھائی نور عالم جوکہ اس کے والد کے قاتل مالک کا بیٹا تھا بھی کلاچ خان کے گھر آتا جاتا رہا۔ کلاچ خان نے سب دشمنی ضد اور آنا کو پس پشت ڈال کر نور عالم کو اپنے سگے بھائیوں کی طرح دل سے لگایا اور اپنے چچازاد بھائیوں میں سے ایک دو کو مزدوری کرنے بیرون ملک بھی بھیجا۔ ان کے ویزا کا بندوبست اور سارا خرچہ کلاچ خان نے اپنے سر لیا تھا تاکہ ان کی حالات بہتر ہو سکیں۔

کلاچ خان بھائی چارے کی مثال قائم کرنا چاہتا تھا۔ وہ نور عالم کا ہر طرح سے کافی خیال رکھتا تھا۔ 21 نومبر 2004 کو جب یہ سانحہ ہونے والا تھا اس سے کچھ دن پہلے نورعالم کلاچ خان کے گھر آیا اور رہنے لگا۔ کلاچ خان نے نورعالم کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور بیوی کو بار بار تاکید کی کہ نور عالم کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ رہے یہاں تک کہ وہ نور عالم خان کے لیے ناشتے میں بھی گوشت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

مگر نور عالم اپنے دل میں شاید کچھ اور سوچتا تھا۔ نور عالم کو ورغلانے میں اور اس کا ساتھ دینے میں (جس کو باسکیری کہا جاتا ہے) اور لوگوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نورعالم کو بندوق فراہم کی۔

21 نومبر 2004 کی صبح کو جب اذان کا وقت تھا کلاچ خان حسب معمول تہجد کے نوافل پڑھ رہا تھا تو نور عالم خان نے بندوق سے فائرنگ کر کے کلاچ خان کو موقع پر قتل کردیا اور اس کے چاروں بیٹوں پر بھی ایک ایک کرکے فائرنگ کر دی۔ پھر کلاچ خان کی بیوی کے پاس جاکر کہا کہ کلاچ خان کو کسی نے قتل کردیا اور صرف یہ کہتے ہوئے گھر کے دروازے سے نکل کر بھاگنے لگا۔

چونکہ صبح کی نماز کا وقت تھا تو مسجد پر لوگوں نے نورعالم کو بھاگتے دیکھ کر وجہ پوچھی جس پر نورعالم خان نے بہانہ بنا کر کہا کہ کلاچ خان کے پیٹ میں درد ہے اس کے لیے گاڑی کا بندوبست کرنے کے لیے بھاگ رہا ہوں تو وہاں کے لوگوں نے نور عالم کو بتایا کہ فلانے کے گھر گاڑی ہے آپ اس کے گھر چلے جاو۔ ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ نورعالم کلاچ خان کی ’خیئی‘ کر کے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نورعالم گاڑی لے کر شوال کی جانب بھاگ گیا اور پھر شوال سے اپنے خاندان سمیت وزیر قوم کے علاقے سے ہوتا ہوا کراچی پہنچ گیا۔ کلاچ خان کا بڑا بیٹا امداد اللہ زخمی تھا جبکہ باقی سب ہلاک ہو چکے تھے۔ علاقے کے لوگوں نے امداد اللّٰہ کو ٹانک لے جانا چاہا مگر امداد اللہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگیا اور تاہم اس سے پہلے اس نے علاقے کے لوگوں کو نورعالم کے بارے میں بتا دیا۔

جب کلاچ خان کا خیئی ہوا تو اس وقت جرگہ جس کو درے ماسید کہا جاتا تھا اس نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ کلاچ خان کا خیئی ہوا ہے اور اس کے خاندان کا کوئی وارث زندہ نہیں رہا لہذا کلاچ خان کے مکان کو مسمار کر کے اسی میں کلاچ خان اور اس کے چار بیٹوں کو دفن کرتے ہیں تاکہ کوئی اور کلاچ خان کے اس خوبصورت مکان کو اپنے لیے استعمال نہ کرسکے۔

اسی دوران کلاچ خان کی بیوہ نے اپنے شوہر اور چار بیٹوں کے غم کو تو برداشت کیا لیکن وزیرستان کی مٹی کی یہ بہادر خاتون اپنے عزت و آبرو پر آنچ برداشت نہ کرسکی اور ہزاروں کی تعداد میں موجود اس لشکر کے سامنے آکر بلند آواز میں کہنے لگیں کہ ’اے لشکر کے لوگوں سب کان کھول کر سن لو کہ میں حاملہ ہوں اور میرا یہ حمل کلاچ خان سے ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کل آپ لوگ میری عزت وعصمت پر طرح طرح کے داغ لگا کر باتیں کرتے رہو۔‘

اس طرح پھر لشکر نے کلاچ خان کے مکان کو مسمار کردیا اور اسی گھر میں کلاچ خان اور اس کے چاروں بچوں کو دفن کردیا اور کلاچ خان کی بیوی اپنے میکے چلی گئی۔ لشکر نے چیغہ کی صورت میں نور عالم خان کے مکان کو جلا کر خاکستر کر دیا اور اس کی زمینیں چھین لی گئیں اور ٹینگا کرکے نور عالم اور اس کے خاندان کو علاقہ بدر کر دیا۔

نورعالم خان جوکہ جائیداد حاصل کرنے میں اندھا تھا وہ کلاچ خان کی جائیداد تو حاصل نہ کرسکا بلکہ اپنے آبائی علاقے اور جائیداد سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ جو نور عالم خان کے والد مالک نے کلاچ خان کے والد ظاہر شاہ کے ساتھ کیا تھا وہی کلاچ خان کے ساتھ بھی نورعالم خان نے کیا۔ جس طرح کلاچ خان نے اپنی والدہ اور والدہ کے دوسرے شوہر کے ساتھ جوانی گزاری اسی طرح کلاچ خان کے مرنے کے بعد کلاچ خان کا بیٹا پیدا ہوا اور کلاچ خان کی بیوہ نے دوسری شادی کر لی جوکہ اب بحرین میں اپنے بچوں سمیت رہائش پذیر ہے۔

کلاچ خان کا بیٹا اپنی والدہ اور والدہ کے دوسرے شوہر کے ساتھ رہ رہا ہے۔ کلاچ خان اور اس کے بچوں کے قبروں کی زیارت کرنے اور ان کے لیے دعا کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں اور ظلم کی اس کہانی پر افسوس اور آنسو بہاتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔

 کلاچ خان کا مکان اور اس کی قبریں اس ظلم کی کہانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا