اداکارہ عظمیٰ خان پر مبینہ حملے کی ویڈیو دو دن بعد کیوں سامنے آئی؟

عظمیٰ خان کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ چاند رات کو دو خواتین نے ان کے گھر پرحملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ تاہم اس معاملے پر ٹرینڈ مختلف ناموں سے منگل کی رات سے شروع ہوئے اور ایف آئی آر بھی بدھ رات گئے درج کی گئی۔

عظمیٰ خان پاکستانی اداکارہ ہیں جو ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’وار‘ سمیت مختلف فلموں میں کام کر چکی  ہیں (تصویر: انسٹاگرام)

ٹویٹر پر پاکستانی اداکارہ عظمیٰ خان پر تشدد کے حوالے سے ایک طوفان آیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں لاہور کے تھانہ ڈیفنس میں مقدمہ تو درج ہوگیا ہے لیکن اس میں دی جانے والی تفصیل سے ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ شکایت کندہ نے اس معاملے کو دو دن بعد کیوں عام کیا۔

عظمیٰ خان کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ چاند رات کو دو خواتین نے ان کے گھر پرحملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

تاہم اس معاملے پر ٹرینڈ مختلف ناموں سے منگل کی رات سے شروع ہوئے اور ایف آئی آر بھی بدھ رات گئے درج کر لی گئی۔

نہ تو پولیس رپورٹ میں اور نہ عظمی نے خود اس تاخیر کی کوئی وجہ بیان کی ہے تاہم ایک ویڈیو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں دو روز سے معاملہ دبانے کے لیے رقوم کی پیشکش ہو رہی تھی۔

ایف آئی آر میں اداکارہ عظمیٰ خان نے ملک ریاض کی دو بیٹیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ان کے گھر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی، تشدد کیا اور ہراساں کیا۔

عظمیٰ خان پاکستانی اداکارہ ہیں جو ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’وار‘ سمیت مختلف فلموں میں کام کر چکی ہیں۔

عظمیٰ خان کے وکیل حسان نیاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو واقعے کے حوالے سے بتایا کہ چاند رات پر کچھ خواتین لاہور میں عظمیٰ خان کے گھر میں گھس آئیں اور عظمیٰ اور ان بہن پر مبینہ طور پر تشدد کیا، ان کے کپڑے پھاڑے اور ان کے گھر میں موجود آئی فون وغیرہ چوری کیا۔

 ادھر وفاقی وزیر برائے حقوق انسانی شیرین مزاری نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ اس اصول کے ساتھ کھڑے ہیں کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ پولیس کو اب تحقیقات کرنی چاہیں اور قانون کی بالادستی یقینی بنانی چاہیے۔ طاقتور اگر قانون توڑتے ہیں تو ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔

اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں بظاہر عظمیٰ خان کے زخم اور خون بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سارے معاملے میں عثمان نامی ایک شخص کا نام بھی گردش کر رہا ہیں جن کا عظمیٰ سے تعلق جوڑا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے عظمیٰ کے وکیل حسان نیازی نے بتایا کہ عثمان کی عظمیٰ خان کے ساتھ پہلے سے دوستی تھی اور مبینہ تشدد کرنے والی خواتین میں عثمان کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔

حسان نے بتایا: ’عظمیٰ خان پر پٹرول بھی چھڑکا گیا اور ان کے سارے گھر کے سامان کو توڑا گیا۔ اسی گھر میں یہ دونوں بہنیں پچھلے چار سال سے رہ رہی ہیں۔ اس سارے تشدد کی ویڈیو بنا کر ان خواتین نے سوشل میڈیا پر وائرل کر کے میری موکل کی عزت بھی داؤ پر لگائی ہے۔‘

اس واقعے کے حوالے سے عظمیٰ خان نے ٹوئٹر پر اپنا ایک بیان بھی شیئر کیا جس میں انہوں نے کہا کہ پچھلے تین دنوں سے ان کی بے عزتی کی جا رہی ہے اور انہیں قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں پر انہوں فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ  طاقت ور شخصیات کے خلاف لڑیں گی۔ 

انہوں نے لکھا: ’انصاف کے حصول کے لیے یا میں ماری جاؤں گی یا انصاف لے کے رہوں گی۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

عظمیٰ جمعرات کو ایک پریس کانفرنس بھی کریں گی۔

دوسری جانب ملک ریاض نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ اس تنازعے میں شامل عثمان کی ان کے ساتھ کوئی رشتہ داری ہے۔

ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا: ’سوشل میڈیا پر میرے حوالے سے شرمناک پروپیگینڈا کیا جا رہا ہیں جس کی میں سختی سے تردید کرتا ہوں اور عثمان نامی شخص کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس واقعے کو میرے ساتھ جوڑا جا رہا ہے جو بالکل غلط ہے۔‘

اس واقعے کی ٹوئٹر پر صارفین بھی مختلف آرا پیش کر رہے ہیں۔

اینکر پرسن ماریہ میمن نے لکھا ہے کہ اس واقعے میں پٹرول چھڑکنے کا تعلق خواتین پر تیزاب پھیکنے کے قوانین سے جوڑا جا سکتا ہے اور اس کیس کو ضرور دیکھنا چاہیے۔

صحافی ناجیہ اشعر نے لکھا ہے کہ مین سٹریم میڈیا میں اس کی خبر نہ آنا ظاہر ہے۔

اینکر ارشد شریف نے ٹویٹر پر لکھا ہیں کہ آئین کے دفعہ 14 کسی بھی شخص کی عزت اور گھر کی پرائیسوی کی ضمانت دیتا ہے اور وزیر اعظم سمیت وزیر اعلٰی پنجاب کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ