بھارت میں بندر کرونا مریضوں کے نمونے لے کر بھاگ نکلے

بندروں نے لیب ٹیکنیشن پر اس وقت حملہ کیا جب وہ ریاست اترپردیش کے علاقے میرٹھ کے میڈیکل کالج کے کیمپس میں موجود تھے۔

بھارت میں بندر طویل عرصے سے انسانی آبادیوں میں رہ رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مسائلاور ان کے حملوں کا سامنا رہتا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

بھارت میں بندروں کا ایک گروہ لیبارٹری میں کام کرنے والے ایک شخص پر حملہ کرنے کے بعد کرونا (کورونا) وائرس کے مریضوں سے حاصل کردہ خون کے نمونے چھین کر فرار ہو گیا۔

ان بندروں نے لیب ٹیکنیشن پر اس وقت حملہ کیا جب وہ بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے میرٹھ کے میڈیکل کالج کے کیمپس میں موجود تھے۔ بندروں کا یہ گروہ فرار ہوتے وقت کووڈ 19 کے مثبت مریضوں کے خون کے نمونے بھی چھین کر لے گیا۔

ٹوئٹر پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بندر ایک درخت پر بیٹھا ہے اور اس کے پاس چرائی گئی کٹس میں سے ایک کٹ موجود ہے۔

اس جانور کو زمین پر کچھ گراتے دیکھا جا سکتا ہے جو ایک ڈسپوزیبل دستانہ دکھائی دے رہا ہے جبکہ وہ دوسرے کو چبا رہا ہے۔

حکام کے مطابق یہ پتہ نہیں چلایا جا سکا کہ ان بندروں نے نمونوں میں موجود خون کہاں کہاں گرایا ہے۔ لیکن کیمپس کے قریب موجود افراد خوف زدہ ہیں کہ یہ وائرس قریب کے رہائشی علاقے میں پھیل سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کالج کے سربراہ ڈاکٹر ایس کے گارگ کا کہنا ہے کہ 'بندر چار زیر علاج کرونا مریضوں کے خون کے نمونے چھین کر فرار ہو گئے۔ ہمیں ان افراد سے دوبارہ خون کے نمونے لینے پڑیں گے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا متاثرہ فرد کے خون کے ذریعے بندر بھی کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: 'اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بندر بھی کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔'

مانا جاتا ہے کہ یہ وائرس گذشتہ سال چین کے شہر ووہان میں موجود جانوروں کی مارکیٹ میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔

بھارت میں اب تک کرونا کے ایک لاکھ 65 ہزار 799 کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ چار ہزار 706 ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔

بھارت میں بندر طویل عرصے سے انسانی آبادیوں میں رہ رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مسائل اور ان کے حملوں کا سامنا رہتا ہے۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق فطری ماحول کی بربادی کی وجہ سے جانور خوراک کی تلاش میں شہری آبادی کا رخ کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں خبررساں ادارے روئٹرز کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا