امریکہ: چار پولیس اہلکار زخمی، فلائیڈ کی ہلاکت ’طاقت کا غلط استعمال‘ قرار

یورپی یونین کے ڈپلومیٹک چیف کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے یورپ ’پریشان اور خوفزدہ ‘ ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ایک ہفتے سے پرتشدد مظاہروں میں گھرے امریکہ میں فوجی کریک ڈاؤن کی دھمکی دی ہے(اے ایف پی)

یورپی یونین کے ڈپلومیٹک چیف کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے یورپ ’پریشان اور خوفزدہ ‘ ہے۔

یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزف بوریل نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’طاقت کا غلط استعمال‘ قرار دیا ہے۔

 جوزف بوریل نے منگل کو امریکہ سے درخواست کی کہ وہ ’طاقت کے بے جا استعمال‘ کو لگام دینے کا کہا ہے۔

دوسری جانب امریکہ میں ہولیس کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران سینٹ لوئس میں چار پولیس اہلکار گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس چیف کرنل جان ہیڈن نے بتایا ہے کہ زخمی ہونے والے اہلکاروں کی ’جان کو خطرہ نہیں ہے‘۔

اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ایک ہفتے سے پرتشدد مظاہروں میں گھرے امریکہ میں فوجی کریک ڈاؤن کی دھمکی دی ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ دارالحکومت واشنگٹن کی سڑکوں پر ہزاروں فوجی بھیج رہے ہیں جبکہ ریاستوں میں دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی بھیجے جا سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں ’پولیس کی بربریت اور نسل پرستی‘ کے خلاف مظاہروں میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے ہیں۔

یہ 1968 کے بعد امریکہ میں بدترین بد امنی ہے، جب انسانی حقوق کے عمل بردار مارٹن لوتھر کنگ جونیئرکے قتل پر ردعمل میں شہروں کے شہر آگ کی نذر کر دیے گئے تھے۔

منیاپولس شہر میں ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد پورے  ملک میں احتجاج میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ جعلی بل کے ذریعے سگریٹ خریدنے کے الزام میں فلائیڈ کو گرفتار کرنے کے دوران مقامی پولیس کے ایک افسر نے ان کی گردن پر اپنا گھٹنہ رکھا تھا، جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور وہ ہسپتال میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اس واقعے کی مذمت میں نیو یارک، لاس اینجلس اور دیگر درجنوں شہروں میں دہائیوں کے بعد بد ترین پر تشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے۔

ابتدا میں خاموشی اختیار کرنے والے ٹرمپ نے خود پر تنقید کے بعد پیر کو وائٹ ہاؤس کے باہر پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس پھینکے جانے کے دوران قوم سے خطاب میں فوجی لب و لہجہ اپناتے ہوئے کہا، 'میں دنگے فساد، لوٹ مار، غنڈہ گردی، حملوں اور املاک کو نذر آتش کرنے کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں مسلح فوجی اور قانون نافذ کرنے والے افسروں کو بھیج رہا ہوں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے گذشتہ رات واشنگٹن میں بد امنی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے 'ذلت آمیز' قرار دیا اور ریاستی گورنروں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً قوت کے ساتھ دوبارہ 'سڑکوں کا کنٹرول' حاصل کریں۔

'اگر ایک شہر یا ریاست شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے سے گریز کرتی ہے تو میں فوج تعینات کر کے ان کے لیے مسئلہ فوراً حل کر دوں گا۔'

ٹرمپ کے خطاب کے بعد وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا تاکہ صدر سڑک عبور کر کے دو صدیوں پرانے سینٹ جونز چرچ جا سکیں، جس کی عمارت اتوار کو ہنگامہ آرائی کے دوران آگ لگنے  اور دیواروں پر نعرے بازی سے جزوی طور پر متاثر ہوئی۔

نیویارک کے گورنر انڈریو کومو نے ٹوئٹر پر کہا، 'آج صدر ٹرمپ نے امریکی شہریوں کے خلاف امریکہ فوج کو طلب کیا ہے۔ انہوں نے پر امن مظاہرے کو ختم کرنے کے لیے فوج کو طلب کیا تاکہ وہ چرچ کے باہر تصاویر بنوا سکیں۔ یہ صدر کے لیے محض ایک ریائلٹی ٹی وی شو ہے۔'

امریکہ میں ہونے والے زیادہ تر حالیہ مظاہرے پر امن رہے ہیں، جہاں پولیس نے مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا اور ان کے ساتھ مارچ کیا۔

تاہم دوسری جانب کئی شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوئے اور کنٹکی، لوئس ویل میں ایک شخص فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ