کرک میں گیس ترقی نہیں، موت بانٹ رہی ہے

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جس علاقے سے قیمتی معدنیات نکلتی ہیں اس کی قسمت بدل جاتی ہے، مگر کرک میں اس کے الٹ ہوا ہے۔

کرک میں ایک گیس فیلڈ (تصویر: بشکریہ مول گروپ)

خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کے نصیر خٹک اب تک اپنے خاندان کی دو خواتین کے جنازوں کو کندھا دے چکے ہیں اور اب بھی ان کے خاندان میں دو مریض کینسر سے لڑ رہے ہیں۔ جن میں ایک نصیر کے والد صاحب ہیں اور دوسری نصیر کی شریک حیات۔

لیکن اس مرض کا سبب کرونا (کرونا) جیسا کوئی خطرناک وائرس نہیں بلکہ علاقے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔

وہ اپنے مریضوں کے علاج کے سلسلے میں پچھلے چار سالوں سے ہر ہفتے پشاور کے ارنم ہسپتال کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب میں کینسر کے سارے ڈاکٹروں کو پہچان گیا ہوں کہ خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر شہروں میں کون سا ڈاکٹر کینسر کا بہترین علاج کرتا ہے۔ وہ ہر ٹیسٹ کے نام بھی جان چکے ہیں۔ خود چونکہ میڈیکل ٹیکنیشن ہیں، اس لیے وہ اس بیماری کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔

نصیر کے مطابق وہ اپنے مریضوں میں اتنے گم ہوگئے ہیں کہ انہیں اب تک یہ احساس نہیں ہوا کہ دنیا میں ایک وبا کرونا نام کی آئی ہے جس نے بڑی تباہی مچائی ہے۔ ان کے بقول ان کے گھر میں کوئی کینسر کا مریض نہیں تھا مگر اب گھر میں چار مریض ہو گئے ہیں۔

نصیر اکیلے نہیں ہیں، ان جیسے خاندان ضلع کرک کی تمام تحصیلوں میں موجود ہیں جن میں کوئی نہ کوئی کینسر کا مریض ہے اور وہ اس موذی مرض سے زندگی کی بازی لڑ رہا ہے جس میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

علاقے کے عوام اس کو گیس اور تیل کے وسیع ذخائر کی دریافت سے جوڑ رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آج سے دوعشرے پہلے یہاں ایک کیس بھی نہیں تھا، لیکن جب سے گیس آئی ہے یہ بیماریاں بھی ساتھ لے کر آئی ہے۔

موجودہ وقت میں اس ضلع کی تحصیلوں میں کینسر اور جلدی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، لیکن تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ میں یہ تناسب زیادہ ہے۔ یہ تحصیل ضلع کرک کی غریب تحصیلوں میں شامل ہے جس کی پانچ یونین کونسلز ہیں۔ ہر یونین کونسل کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی یا تجارت سے وابستہ ہیں یا پھر خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔

خواتین کا تعلیمی تناسب بھی باقی تحصلیوں سے کم ہے۔ جب یہاں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر کی دریافت ہوئی تو اہل علاقہ کو امید ہوئی کہ اب علاقے کی قسمت سنور جائے گی اور پروڈکشن بونس سمیت رائلٹی کا پیسہ اس ضلع اور تحصیل پر لگے گا، جس سے علاقہ ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر گیس اور تیل نکالنے والی ایک بڑی کمپنی نے یہاں مکوڑی کے مقام پر تحصیل بانڈہ داﺅد شاہ میں گیس پلانٹ تعمیر کرا دیا اور یوں 2000 کے بعد یہاں گیس کی پیداوار شروع ہو گئی۔

 یہاں سے گیس نکل کر ڈی آئی خان اور پشاور تک فراہم ہونا شروع ہو گئی تو یہاں کے علاقے بھی اس گیس سے فائدہ اٹھانے لگے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی تھی کہ یہ فری گیس زون ہے جو کہ علاقے کے لوگوں کو مفت میں ملے گی۔ اس لیے لوگوں نے میٹر لگوا لیے مگر بل دینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔  

پھر ایک وقت آیا کہ یہاں کے لوگوں پر گیس بند کر دی گئی۔ احتجاجی مظاہرے کیے گئے مگر مسئلہ حل نہیں ہوا اور ابھی تک گیس کی بندش سے علاقے کے مکین پریشانی کا شکار ہیں۔ اس کمپنی کے زیر نگرانی مکوڑی، منزلی بلاک، ٹل بلاک اور سام پوائنٹ سے 16 ہزار بیرل پیٹرولیم یومیہ اور 30 کروڑ کیوبک گیس پیدا ہوتی ہے۔

گذشتہ دوعشروں سے مول کمپنی کے تحت آئل فیلڈ سے یومیہ 60 کروڑ کی آمدنی حکومت کو ملی ہے جس میں سے 50 فی صد صوبہ خیبر پختونخوا کو ہر سال مل رہا ہے جبکہ ضلعے کے حصے میں 10 فی صد آتا ہے، مگر 10 فی صد میں اگر دو تین فی صد بھی اس ضلع پر لگتا تو آج یہ ترقی یافتہ ضلعوں میں شمار ہوتا۔ اب یہ معیشت اور خزانے کے ماہرین ہی بتائیں گے کہ یہ پیسہ کہاں گیا۔

پروڈکشن بونس فنڈ کے تحت جس علاقے میں معدنی ذخائر دریافت ہوتے ہیں وہ اس علاقے پر لگتے ہیں، لیکن یہاں اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

مول کمپنی جہاں پر کام شروع کرتی ہے وہاں ہسپتال، سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر پر کام کرتی ہے، کیونکہ گیس اور تیل سے علاقے کے لوگ مختلف طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں پانی کی کمی آجاتی ہے اور جلدی اور پیٹ کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں جبکہ مختلف کیمیکلز کے اخراج سے کینسر جیسے موذی مرض میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

20 سالوں سے جب سے تحصیل بانڈہ داﺅدشاہ میں گیس، تیل اور یورینیئم کی دریافت ہوئی ہے یہاں کینسر، جلدی امراض کے مریض زیادہ ہو گئے ہیں اور لوگ کینسر اور جلدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہی معدنیات ہیں۔

اس حوالے سے ٹیری ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر غزنی گل سے بات ہوئی جنہوں نے بتایا: ’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بیماری کی وجوہات گیس اور تیل ہیں کیونکہ اس علاقے میں ابھی تک اس بابت کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ گیس اور تیل کی دریافت اس بیماری کا باعث ہیں، مگر یہ بات ضرور ہے کہ یہاں اب جلدی بیماریاں پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کینسر کے علاج کے لیے ہمارے پاس ضلعے میں سہولیات نہیں ہیں، اس لیے ہر مریض کو پشاور بھیج دیا جاتا ہے، مگر جب تک اس بیماری کا پتہ چلتا ہے تو مریض تیسرے سٹیج میں جاچکا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہاں کا پانی بھی صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں، لہٰذا اس علاقے کے پانی کا بھی ٹیسٹ کیا جائے اور کینسر جیسے موذی مرض کے حوالے سے میڈیکل سائنسز والے تحقیقات کریں کہ واقعی اس علاقے کے عوام کے مفروضے کے مطابق یہ بیماری اس گیس کی وجہ سے عام ہوئی ہے یا اس میں کچھ اصلیت بھی ہے۔ فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔‘

گیس کی وجہ سے ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مقامی سڑکوں کا ستیاناس ہوگیا ہے کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیوی ٹریفک ان سڑکوں پر سے گزرتی ہے جس سے عوام ایک ذہنی کیفیت سے دوچار ہیں اور سب کا کہنا ہے کہ اس گیس اور تیل کی وجہ سے انہیں امید تھی کہ علاقے میں ترقی آئے گی مگر اس نے مزید نقصان پہنچایا ہے اور موجودہ وقت میں گیس عوام کو کوئی فائدہ دینے کی بجائے موت بانٹنے میں مصروف ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ