جسٹس عیسیٰ کیس: اتار چڑھاؤ، اعتراضات اور اہم ریمارکس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود اپنی اہلیہ اور بیٹے کے نام جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا، جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر خارج کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی کُل 41 سماعتیں ہوچکی ہیں (تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے کر خارج کر دیا ہے۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ اور ایف بی آر کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود اہلیہ اور بیٹے کے نام جائیداد کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

اس حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر عارف علوی کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ 'ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، لہذا ان کی جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔'

انہوں نے خط میں مزید کہا تھا کہ 'ٹیکس حکام نے انھیں کبھی اس حوالے سے کوئی نوٹس نہیں دیا، لہذٰا ان کے خلاف ریفرنس سےحکومت کی بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔'

اس سلسلے میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے گذشتہ روز بذریعہ ویڈیو لنک عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جس میں انہوں نے یہ ساری تفصیلات فراہم کیں کہ انہوں نے لندن میں جائیداد کب اور کیسے خریدی اور اس کے لیے رقوم کہاں سے آئیں۔

عدالت عظمیٰ نے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے جوابات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کا ایف بی آر کا ٹیکس ریکارڈ سربمہر لفافے میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا، جو آج عدالت عظمیٰ کو پیش کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے شام چار بجے کا وقت مقرر کیا تھا، جس کے بعد جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

کیس میں کب کیا ہوا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی کُل 41 سماعتیں ہوچکی ہیں۔

اپنے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی معطلی کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گذشتہ برس اگست میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کی پہلی سماعت 17 ستمبر 2019 کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے کی تھی، لیکن پہلی ہی سماعت میں قاضی عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی جانب سے بینچ میں شامل دو ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض اٹھایا گیا کہ ان دو ججز کو جسٹس فائز عیسیٰ کو ہٹائے جانے سے فائدہ پہنچ سکتا ہے، لہذا مفادات کے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ججز سماعت سے الگ ہوجائیں۔

اعتراض کے بعد دونوں ججز نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی اور بینچ ٹوٹ گیا، جس کے بعد 20 ستمبر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل بینچ تشکیل دیا گیا اور 24 ستمبر 2019 سے باضابطہ طور پر اس کیس کی پہلی سماعت شروع ہوئی۔

ان 41 سماعتوں میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ کیس کے آغاز میں ججز کے اتنے سوالات نہیں ہوتے تھے لیکن جیسے جیسے پرت در پرت کیس کھلتا گیا ججز کے سوالات میں اضافہ ہو گیا۔

واضح رہے کہ یہ ایک درخواست نہیں تھی بلکہ مرکزی درخواست کے ساتھ قاضی فائز عیسی کے ریفرنس کے خلاف پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار، اسلام آباد بار، سندھ بار، کوئٹہ ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار، کراچی بارایسو سی ایشن، خیبرپختونخوا بار اور پشاور ہائی کورٹ بار سمیت 16 درخواستیں دائر کی گئیں تھیں۔

پہلے درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کیا اور ان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے رضا ربانی، سلمان اکرم راجا، حامد خان، رشید اے رضوی اور بابر ستار نے بھی دلائل دیے۔

درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے دلائل کا آغاز کیا تو سماعت کے دوران مختلف مواقع پر ججز کی جانب سے کیے گئے سوالات کا اٹارنی جنرل انور منصور خان تسلی بخش جواب نہیں دے سکے بلکہ ہر بار یہی کہتے رہے کہ وہ دلائل سے ثابت کریں گے یا بعد میں اس کا جواب دیں گے، جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ شاید اٹارنی جنرل ان درخواستوں پر جواب دینے کے لیے تیاری کرکے نہیں آئے، جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل انور منصور سے یہ بھی کہا کہ 'وہ عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں برس فروری میں ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل انور منصور نے بینچ کے ججز پر الزام لگایا کہ کچھ ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی ڈرافٹنگ میں مدد کی جس پر ججز برہم ہو گئے اور حکومت نے اٹارنی جنرل سے استعفیٰ لے لیا۔

نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان تعینات ہوئے لیکن انہوں نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں حکومت کی نمائندگی سے معذرت کر لی اور کہا کہ اس ریفرنس پر وہ پہلے ذاتی طور پر اعتراضات اٹھا چکے ہیں، جس کے بعد ان کا کیس میں پیش ہونا مناسب نہیں ہے۔

پھر طے یہ پایا گیا کہ حکومت کی جانب سے جوابی دلائل اٹارنی جنرل نہیں بلکہ وزیر قانون فروغ نسیم دیں گے۔

یوں پھر حکومت نے اس کیس میں صدارتی ریفرنس کے دفاع کے لیے وزیر قانون فروغ نسیم کی خدمات حاصل کیں، لیکن وزیر قانون اس عہدے پر رہتے ہوئے وکالت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دیا اور عدالت میں وکالت نامہ جمع کرایا۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے متنازع دعوے پر پاکستان بار کونسل نے وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 'اس الزام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی جاسوسی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔'

حکومتی دلائل رواں ماہ جون میں ہی شروع ہوئے جس کے بعد دیگر حکومتی وکلا نے الگ دلائل دینے کی بجائے فروغ نسیم کے دلائل کی ہی توثیق کی۔ اس دوران جسٹس فائز عیسیٰ بھی بطور درخواست گزار عدالت میں پیش ہوئے اور اپنی اہلیہ کے ویڈیو بیان کی بات کی جس کے بعد عدالت نے قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ویڈیو بیان کی اجازت دی اور 18 جون 2020 کو سرینا عیسیٰ نے 55 منٹ پر مشتمل ویڈیو بیان عدالت میں ریکارڈ کرایا۔

قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے جمعے کو جوابی دلائل دیے اور یوں نو ماہ جاری رہنے والے اس مقدمے کے سماعت مکمل ہوئی۔ ججز نے چھ گھنٹے مشاورت کی اور آج شام چار بجے مختصر فیصلہ جاری کردیا۔

کیس میں دلچسپ اور اہم ریمارکس

دوران سماعت ایک موقع پر بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ 'کیا صدر مملکت کا اختیار ہے کہ جج کے کنڈیکٹ (رویے) کا جائزہ لیں؟'

انہوں نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کو یہ بھی باور کرایا تھا کہ 'ججز کی جاسوسی کرنے پر ایک جمہوری حکومت گھر جا چکی ہے۔'

اس بات کا سیاق و سباق یہ تھا کہ 1996 میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ججزکے فون ٹیپ کیے تھے، جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ججز کی جاسوسی نہیں کی جا سکتی۔

عدالت نے حکومتی دلائل سن کر شروع دن سے ہی یہ ریمارکس دیے کہ یہ مقدمہ کرپشن کا نہیں بلکہ ٹیکس کا لگتا ہے، اس لیے معاملہ ایف بی آر کے پاس جانا چاہیے۔

بینچ کے سربراہ نے حکومتی وکیل سے مکالمے کے دوران یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ 'صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے؟ یہ آئیڈیا کس نے دیا کہ معاملہ نیب اور ایف بی آر کو بھیجنے کی بجائے ریفرنس بنایا جائے؟ ریفرنس میں آپ نے جرم کون سا بتایا ہے؟ ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو؟ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں نقائص ہیں؟ عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے، اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔'

عدالت نے اس کیس میں حکومت سے کچھ سوالات بھی پوچھے تھے۔

پہلا سوال: ریفرنس کا مواد غیر قانونی اکھٹا کرنے پر قانونی دلائل دیے جائیں؟

دوسرا سوال: شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی؟

تیسرا سوال: شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی؟

چوتھا سوال: اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کیں؟ اور اس یونٹ کا آرٹیکل 209 کےساتھ کیا تعلق ہے؟

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعتیں

سپریم کورٹ سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت، ججوں کے احتساب کے واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل میں ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں پہلی سماعت 14 جون 2019 کو ہوئی، جس کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔ دو جولائی کو دوسری سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا جواب جمع کرایا اور 12 جولائی کو تیسری سماعت میں اٹارنی جنرل نے جواب الجواب جمع کرایا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی سے دو مرتبہ خطوط کے ذریعے رابطہ کرکے شکوہ بھی کیا تھا کہ 'میڈیا میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جو ٹرائل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔'

سپریم جوڈیشل کونسل کی تین سماعتوں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان