وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ملک بھر کے سکولوں میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا اعلان تو کردیا، تاہم پرائیویٹ سکولز فیڈریشن اسے وزیراعظم کا ایک 'ناقابل عمل سیاسی نعرہ' خیال کرتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے اس دور میں اسے رائج کرنا ناممکن ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے یہ کوئی نیا اعلان نہیں تھا بلکہ جب حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی، تب بھی کئی بار پی ٹی آئی سربراہ یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا اعلان کرتے رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں بھی یہ نظام لاگو کرنے کی شق شامل ہے۔
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ حکومت نے چاروں صوبوں کی منظوری سے یکساں نصاب تعلیم تیار کرلیا ہے، اس میں وفاق المدارس اور پرائیویٹ سکولز کو بھی اعتماد میں لے کر ان کی تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور ان میں سے جو بھی قابل عمل ہوں گی ان کو مان لیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں اپریل 2021 میں پرائمری تک یہ نظام لاگو ہوگا جبکہ دوسرے مرحلے میں 2023 میں چھٹی سے آٹھویں تک جبکہ نویں سے انٹرمیڈیٹ تک تیسرے مرحلے میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔
شفقت محمود نے بتایا کہ جب یہ نظام لاگو ہوگا تو کسی پرائیویٹ سکول یا مدرسے میں اس کے علاوہ کوئی نصاب پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی اور جو سکول یا مدارس اس پر عمل نہیں کریں گے انہیں بند کردیاجائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ جب کتابوں کا متفقہ نمونہ تیار ہوگا تو اسے آؤٹ سورس کردیا جائے گا۔ صوبائی ٹیکسٹ بورڈز کے علاوہ کوئی سکول بھی جہاں سے چاہے کتابیں چھپوا سکے گا لیکن مسودہ حکومتی ہی چلے گااور وہ تبدیل نہیں ہوگا۔
شفقت محمود کے مطابق اس نظام کے تحت تعلیم کے شعبے میں طبقاتی تقسیم ختم ہوگی اور عوام اور خواص کے بچوں کو ایک ہی طرح سے تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: 'اگر کرونا وبا کے باعث سکولوں اور اداروں کی بندش آڑے نہ آئی تو مقررہ وقت پر نیا نصاب متعارف کرادیں گے۔'
واضح رہے کہ پنجاب میں گذشتہ دس سال سے پرائمری کی سطح پر لازم قراردی گئی انگریزی زبان میں تعلیم بھی اردو میڈیم میں تبدل ہوچکی ہے۔
تعلیم کے یکساں نصاب میں رکاوٹیں
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کو یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کے لیے تجاویز دی گئیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، تاہم اگر حکومت نے وفاق المدارس کے مجوزہ طریقہ کار کو سلیبس اور کتب کا حصہ نہ بنایاتو اس نظام کو تسلیم نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا وفاق المدارس پہلے ہی ایک جامع اور مربوط نظام تعلیم رکھتا ہے جس کے تحت ہزاروں بچے بچیوں کو دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے، تاہم جس طرح کا نصاب حکومت بنانا چاہتی ہے اس میں مذہبی تعلیم کا حصہ بہت کم رکھا گیا ہے، جو ناقابل قبول ہوگا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر پرائیویٹ سکولز اور دینی مدارس کی مشاورت سے نصاب بنے گا تو تب ہی قابل عمل ہوگا۔
دوسری جانب آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردوسے گفتگو میں کہا کہ 'حکومت نے جو اعلان کیا ہے اس پر عمل ناممکن ہے کیونکہ مدارس اور اے کلاس سکولوں میں تعلیم یکساں نصاب سے ممکن نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اے کلاس سکولوں میں پڑھایا جانے والا سلیبس اگر مدارس، سرکاری اور چھوٹے پرائیویٹ سکولوں میں بھی پڑھایا جارہا ہوگا تو پرائیویٹ سکولوں کو ہزاروں روپے فیسیں کون دے گا؟'
انہوں نے کہا کہ اس سے بھی بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اے او لیول کرنے والے بچوں کے والدین یکساں نصاب تعلیم والے سکولوں میں انہیں کیسے داخل کروائیں گے۔ 'صرف دعویٰ کردینا کافی نہیں اصل بات اس پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ حکمت عملی بنانا ہے جو ممکن نہیں لگتی، کیونکہ پہلے ہی معاشرہ طبقات میں تقسیم ہے۔ اے لیول سکولز، درجہ بی پرائیویٹ سکولز، مدارس اور سرکاری سکولز میں ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق بچوں کو تعلیم دلواتا ہے۔ ان سکولوں میں پڑھانے والوں کو برابر کیسے کیا جاسکتا ہے۔مالدار کب چاہیں گے کہ ان کے بچے بھی عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل کریں۔'
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس نظام کو رائج کرنے میں کرونا وائرس کی وبا کے خاتمے کے بعد بچوں کی تعلیم کا مزید حرج نہ ہوجائے۔ 'ابھی تو فروری مارچ میں دیا جانے والا کورس کرونا کی وجہ سے جون میں دیا جا رہا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اگلے سال اپریل میں بالکل نیا نصاب متعارف کرادیا جائے؟'