بلوچستان یونیورسٹی ہراسانی کیس: ایک اہلکار برطرف، طلبہ مطمئن نہیں

گذشتہ سال بلوچستان کے قدیم تعلیمی ادارے جامعہ بلوچستان میں ہراسانی کا سکینڈل سامنے آیا جس نے یونیورسٹی میں زیر تعلیم  طالبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا اور اس نے صوبہ بھر میں ایک تحریک  کی شکل اختیار کر لی۔

بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسانی سکینڈل سامنے آنے کے بعد وائس چانسلر مستعفی ہو گئے تھے (تصویر فیس بک)

گذشتہ سال بلوچستان کے قدیم تعلیمی ادارے جامعہ بلوچستان میں ہراسانی کا سکینڈل سامنے آیا جس نے یونیورسٹی میں زیر تعلیم  طالبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا اور اس نے صوبہ بھر میں ایک تحریک  کی شکل اختیار کر لی۔

احتجاج کے شدت اختیار کرنے پر طلبہ کےساتھ سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک کا حصہ بن گئیں اور بالآکر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال مندوخیل نے اس کا نوٹس لے کر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کو انکوائری کی ہدایت کی۔ 

بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت جسٹس جمال مندوخیل اور جستس نزیر احمد لانگو پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران یونیورسٹی آف بلوچستان کے رجسٹرار اور وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ عدالت کے احکامات کی روشنی میں سی سی ٹی وی فوٹیج سکیم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف انکوائری مکمل کر لی گئی ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے ایک اہلکار سیف اللہ  سکیورٹی گارڈ کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وائس چانسلر جاوید اقبال، سابق رجسٹرار  طارق جوگیزئی، سابق چیف سکیورٹی آفیسر محمد نعیم اور سابق ٹرانسپورٹ آفیسر محمد شریف کے خلاف انکوائری کی سفارشات پر سینڈیکیٹ کے اجلاس میں رکھی جائیں گی۔

عدالت کے استفسار پر رجسٹرار اور وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سنڈیکیٹ کی اگلی میٹنگ جتنی جلد ممکن ہو طلب کی جائے گی۔

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے نکتہ اعتراض اٹھایا کہ صوبائی اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ ہراسگی کے قانون کے باوجود کسی بھی سرکاری محکمے یا یونیورسٹیز نے کمیٹیاں تشکیل نہیں دی ہیں۔

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس کیس کے ذریعے کئی ایک مسائل اٹھائے گئے ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی آف بلوچستان  کے رجسٹرار، سیکرٹری سینڈیکیٹ کا اجلاس دو ہفتوں کے اندر طلب کریں۔

اور ساتھ ہی درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے پیرا نمبر چھ میں موجود اور ہراسمنٹ ایکت کے تحت کمیٹی کی تشکیل جیسے ایشوز پر بھی غور کریں۔

کیس کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے رجسٹرار اور یونیورسٹی آف بلوچستان کو انکوائری آفیسر کی رپورٹ پر سینڈیکیٹ کے فیصلے کے ساتھ اگلی پیشی پر پیش رفت جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے۔

 ادھر بلوچستان یونیورسٹی کے اکیڈمک سٹاف کے نائب صدر فرید اچکزئی انکوائری رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رپورٹ  تاخیر سے آئی جبکہ اسے جلد آنا چاہیے تھا۔

فرید اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فیصلہ درست ہے لیکن ’ہم ایف آئی اے کی تحقیقات سے مطمئن نہیں  ہیں۔‘

 انہوں نے کہا کہ انکوائری رپورٹ میں اب بھی ایسے بعض  لوگ شامل نہیں ہیں جن کے نام سامنے آتے رہے۔

یونیورسٹی آف بلوچستان کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن بھی اس تحریک میں شامل رہی جن کا مطالبہ تھا کہ جو بھی اس میں ملوث ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

فرید اچکزئی کے مطابق ’ہمارا مطالبہ شروع سے ہی یہی ہے کہ یہ ہمارے ادارے کی ساکھ کا مسئلہ ہے اور ملزمان کو سزا ملے بغیر لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اور صوبے کے دور دراز علاقوں سے قبائلی معاشرے کے ہوتے ہوئے لڑکیوں کا تعلیم کے لیے یونیورسٹی تک آنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرید اچکزئی پرامید ہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی کی سینڈیکٹ بھی ہراسگی سکینڈل سے متعلق ایسا فیصلہ کرے گی جس سے  یونیورسٹی پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا اور تعلیم و تدریس کا سلسلہ  اپنی ڈگر پر چلتا رہے گا۔

ادھر بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین اور یونیورسٹی آف بلوچستان ہراسگی سکینڈل کے خلاف احتجاج میں شامل رہنما ڈاکٹر نواب بلوچ نے کہا کہ وہ اس رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔

ڈاکٹر نواب بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب یہ سکینڈل سامنے آیا تو ’ہم نے تحریک شروع کیجس کا پہلا مطالبہ تھا کہ جو بھی انکوائری ہو اسے طلبہ تنظیموں کے سامنے لایا جائے۔‘

ڈاکٹر نواب کے مطابق انکوائری رپورٹ کا سامنے آنا بہتر اقدام ہے لیکن ’ہم سمجھتے ہیں کہ جو مطالبات ہم نے رکھے تھے ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس سے خدشہ ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔‘

ہراسانی سکینڈل سامنے آنے کے بعد احتجاجی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر متحرک رہنے والی طالبہ اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی رکن سعدیہ بلوچ سمجھتی ہیں کہ انکوائری رپورٹ کا آنا خوش آئند ہے لیکن تسلی بخش فیصلہ نہیں ہے۔

سعدیہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محض ایک شخص کو نوکری سے برخاست کرنا اور دوسروں کو سینڈیکٹ کےحوالے کرنے سے یونیورسٹی کی کھوئی ساکھ بحال کرنے میں مدد نہیں ہوگی۔

سعدیہ کے بقول اس سکینڈل سے خوف کا سما پیدا ہوا ہے اور والدین خاص طور پر اپنی بچیوں کو یونیورسٹی بھیجنے پر خوف محسوس کر رہے ہیں ان کو کون مطئمن کرے گا؟

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے مطالبات میں یونیورسٹی سے سکیورٹی فورسز کا انخلا بھی شامل تھا جس کے بارے میں اس رپورٹ میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس