دل کے خوش رکھنے کو غالب کرونا اچھا ہے

اس سارے معاملے میں حزب اختلاف کا کردار مایوس کن رہا۔ ان کی طرف سے تنقید تو بہت ہوئی لیکن کوئی خاطر خواہ مشورہ سامنے نہیں آیا۔

سائیکل پر سوار ایک شخص اسلام آباد میں دیوار پر طبی عملے کے لیے شکریہ کے پیغام کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

کرونا (کورونا) تو ایک بہانہ ہے۔ ہماری کمزوریاں اور مسائل تو کرونا وائرس سے پہلے بھی بڑے سنگین تھے لیکن ہم نے کبھی غور نہیں کیا۔

امریکہ ہو، اٹلی ہو یا برطانیہ، ان سب کے پاس وسائل بھی تھے، سرمایہ بھی تھا، ان ممالک کو فلاحی ریاستیں بھی کہا جاتا ہے، گھر بیٹھے یہ ممالک بےروزگاروں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیتے ہیں لیکن کرونا وائرس کا حملہ جب ان پر بھی ہوا تو انہوں نے بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔

لیکن ہمارے ملک میں بےحسی کا یہ عالم ہے کہ جنہوں نے اس مملکت خداد پر سالوں حکومتیں کیں ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ یہ تسلیم کر سکیں کہ ان کی حکومتی ترجیحات میں تعلیم اور صحت کبھی رہی ہی نہیں۔ اپنی جائیدادیں بنائیں، دنیا میں پاکستان کی قیمت پر ذاتی تعلقات اور نام بنائے لیکن ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم موجودگی کا انہیں کبھی خیال نہ آیا۔

مصنفہ کی آواز میں یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

ان حکمرانوں کو احساس نہ ہوا کہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہے۔ پھر کہتے ہیں عوام کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ کرونا ایک حقیقت ہے۔ جو لوگ اس پر خوش ہوتے ہیں کہ 22 کروڑ کی آبادی کے اس ملک کی شرح خواندگی 60 فیصد کے قریب ہے، ان کے شعور پر بھی آفرین ہے۔ وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اس 60 فیصد میں سے ایک بڑا حصہ صرف اپنا نام ہی لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔

صحت کے لیے بجٹ کا کتنے فیصد مختص کیا جاتا ہے اور کتنا خرچ ہوتا ہے؟ یہ بحث بڑی دلچسپ ہے لیکن جو لوگ یہ بحث کرتے ہیں ان میں سے کتنے جانتے ہیں کہ بجٹ بنتا کیسے ہے؟

کیوں نہیں اس عوام کے لیے بنیادی تعلیم کی مفت فراہمی یقینی بنائی گئی؟ آئین کے پاسدار اس سوال کا جواب کب دیں گے؟ اب کچھ دانشور اور سیاستدان کہیں گے کہ جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا جس کے نتیجے میں ہماری ترقی متاثر ہوئی۔ تو یہ جواب دینے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ جب تسلسل رہا تب کون سا تیر مار لیا؟ جتنی ترقی اس ملک نے دیکھی، چاہے سٹیل ملز کا منافع میں چلنا ہو یا ڈیموں کا بننا، وہ تمام کی تمام زیادہ تر فوجی ادوار میں ہوئی۔

اب پڑھنے والے مجھ پر فتوے لگا دیں گے کہ میں جمہوریت کی حامی نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے لیکن ہاں مجھے نعمان شوق کا ایک شعر ضرور یاد آگیا۔

پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا

ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے

جمہوریت کے ثمرات عوام کو کیوں نہیں ملتے اور بار بار جمہوریت کا تسلسل کیوں ٹوٹتا رہا؟ اس میں کتنا قصور تسلسل توڑنے والوں کا رہا اور کتنا سویلین قیادت کا رہا؟ یہ بھی وہ سوال ہے جس کا جواب کوئی نہیں دینا چاہتا۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ غیرجمہوری عناصر تو ہم پر مسلط ہو جاتے تھے، مگر آپ کو تو عوام ووٹ دیتے رہے، آپ نے کیوں خسارے کے سودے کیے؟ یہاں تو بجلی کے وہ منصوبے لگائے گئے کہ چاہے بجلی بنے نہ بنے آپ اربوں روپے کی ادائیگیاں کرتے رہیں گے۔ اسی طرح ایل این جی کے معاہدے بھی مہنگے داموں اگلے کئی سالوں کے لیے کر لیے گئے۔

2013 میں سٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کو نکال دیا ہوتا تو قومی خزانے کے اربوں روپے بچ جاتے۔ پی آئی اے میں بھرتیاں ہوتی رہیں لیکن رہنماؤں کے بیان آتے رہے کہ ہم اس ادارے کو ٹھیک نہیں کر سکتے اور پی آئی اے خریدنے والے کو سٹیل ملز مفت دے دیں گے یعنی 'ایک کے ساتھ ایک مفت'۔ میں عوام کو سہولیات ملنے کی حامی ہوں۔ میرے ملک کے نوجوانوں کو نوکریاں ملیں، گھروں میں راشن ہو، خوش حالی ہو، اعلیٰ تعلیمی نظام ہو، صحت کی ہر ضرورت مفت موجود ہو تو پھر وہ چاہے کوئی بھی ہو، جو تخت پر براجمان ہو، اس سے میرے خیال میں عوام کو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ خاص طور پر اس حال میں کہ جب ملکی معیشت کا کباڑہ ہو گیا ہو۔

آپ کا روپیہ گرتا چلا جا رہا ہو۔ نوکریاں نہ ہونے پر نوجوان ایک ہیجانی کیفیت میں ہوں۔ ایسی صورت حال میں عوام کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنا کہ نظام پارلیمانی ہے یا صدارتی، شرط یہ ہے کہ عوام کو وہ سب ملے جو مندرجہ بالا میں نے بیان کیا ہے۔

زیادہ تر عوام میں آج یہی سوچ ہو گی، جب وہ دیکھتے ہوں گے کہ نظام ایسا بوسیدہ اور کرپٹ ہے کہ آٹا سستا ہو تو وہ غائب، چینی سستی ہو تو وہ ناپید، پٹرول سستا ہو تو کمپنیوں کا لالچ عوام کے مسائل کی وجہ۔ کچھ اچھا بھی ہو تو اس ملک میں عوام ہی کے گلے کا طوق بن جاتا ہے۔

جو دو سال پہلے حکومت میں آئے وہ تو آئے ہی اس نعرے کے ساتھ تھے کہ تعلیم اور صحت کا نظام بہتر کریں گے۔ ان کی بد نصیبی ہے کہ ایسی وبا ان کے دور میں اس وقت آئی جب ملک کی معیشت پہلے ہی بیساکھیوں پر تھی اور جو میڈیا یا اپوزیشن رہنما سارا الزام آج کی حکومت پر ڈالتے ہیں وہ خود یہ بات کرتے تھے کہ 2018 میں جو حکومت بنے گی، اس کے لیے معیشت کو سہارا دینا بڑا مشکل ہوگا۔

عمران خان پر لاک ڈاؤن نہ کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ اگر لاک ڈاؤن کر دیتے تو پھر اپوزیشن کی طرف سے یہ الزامات لگائے جاتے کہ غریب مر گیا، دیہاڑی دار نے خود کشی کر لی وغیرہ وغیرہ۔ میرا ذاتی خیال یہی رہا کہ زیادہ دن ملک بند نہیں رہ سکتا تھا اور آج کے حالات گواہی دے رہے ہیں کہ حکومتی اقدامات درست سمت میں جا رہے تھے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی بھی درست ہے جسے دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنا رہے ہیں اور عالمی ادارہ صحت بھی سراہ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس طرح سے دنیا پر یہ وبا اثر انداز ہوئی تو ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ پاکستان جیسا محدود وسائل والا ملک کس طرح اس سے نبرد آزما ہوگا لیکن اب ہم یہ محسوس کر رہے ہیں کہ حکومت نےجن مضبوط اعصاب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اس کے نتائج ہمیں بہتر صورت میں نظر آرہے ہیں اور کرونا کیسز میں بھی واضح کمی واقع ہو رہی ہے۔

اور جو لوگ آج بھی یہ کہتے ہیں کہ حکومت غلط پالیسی پر چلی یا غلط اعداد و شمار بیان کر رہی ہے ان کو چاہیے کہ دو ماہ پہلے کی ہسپتالوں کی صورت حال دیکھ لیں اور اس کا موازنہ آج کی صورت حال سے کر لیں۔

اس ساری وبا کے دوران ایک اور خوش آئند چیز جو ہوئی وہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام تھا۔ جس میں تمام صوبوں کی، تمام اہم اداروں کی نمائندگی رہی اور مشاورت سے فیصلے کیے گئے۔

اس سارے معاملے میں حزب اختلاف کا کردار مایوس کن رہا۔ ان کی طرف سے تنقید تو بہت ہوئی لیکن کوئی خاطر خواہ مشورہ سامنے نہیں آیا۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف پورے پارلیمان کا اجلاس بلواتے ہیں اور خود اس میں شرکت نہیں کرتے، اس میں پیپلز پارٹی ان کا پورا پورا ساتھ دیتی ہے، پھر واک آؤٹ ہوتا ہے، لاکھوں روپے ان کے مفت ٹیسٹ کرانے میں لگتے ہیں اس کے باوجود جس مقصد کے لیے اجلاس طلب کرتے ہیں وہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔

یہ بات یاد رکھیے کہ اگر آج ہمارے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی ہے یا ہسپتالوں کی جو حالت زار ہے وہ سب ان لال پیلی ٹرینوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے ہے۔ اپنی غلطی تسلیم کریں اور ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کام کریں۔ یہ نہ ہو کہ نہ کوئی ووٹ مانگنے والا بچے اور نہ کوئی ووٹ ڈالنے والا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ