بریگزٹ: کیا برطانیہ اُن انتخابات کی طرف جارہا ہے، جن کا انعقاد کوئی نہیں چاہتا؟

وزیراعظم ٹریزا مے نے ممکنہ انتخابات کے پیش نظر آج اپنی کابینہ کے سینئر وزرا کے ساتھ پانچ گھنٹے طویل مذاکرات طلب کرلیے۔

برطانوی وزیراعظم  ٹریزا مے پر دباؤ میں اس وقت اضافہ ہوا، جب ارکان پارلیمنٹ گزشتہ روز متبادل بریگزٹ پلان پر اتفاقِ رائے میں ناکام ہو گئے۔ فائل تصویر: اے ایف پی

برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے ممکنہ انتخابات کے پیش نظر آج اپنی کابینہ کے سینئر وزرا کے ساتھ پانچ گھنٹے طویل مذاکرات طلب کرلیے۔

ٹریزا مے پر دباؤ میں اس وقت اضافہ ہوا، جب ارکان پارلیمٹ گزشتہ روز متبادل بریگزٹ پلان پر اتفاقِ رائے میں ناکام ہو گئے۔ برطانوی دارالعوام میں یورپی یونین سے انخلا کی چار قراردادوں پر ووٹنگ ہوئی، لیکن ان میں سے کسی کو بھی اکثریت حاصل نہ ہو سکی، ان میں کسٹم یونین اور برطانیہ کو ناروے طرز پر سنگل مارکیٹ میں رکھنے کی تجاویز بھی شامل تھیں۔

وزیراعظم ٹریزا مے اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے اس بریگزٹ معاہدے کو اس سے قبل دو مرتبہ تاریخی فرق سے مسترد کیا جا چکا ہے۔ 

سینئر کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر نک بولس، جو کسٹم یونین کے آپشن پر زور دے رہے تھے، نے ڈرامائی طور پر ووٹنگ کے بعد دارالعوام میں ہی اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹوری کے دوسرے اراکین، ان کے ساتھی سمجھوتے پر راضی نہیں ہیں۔

اب جبکہ برطانیہ کے پاس محض دس دن کا وقت ہے، اس دوران یا تو وزیراعظم ٹریزا مے اپنے منصوبے پر عملدآمد کے لیے مزید وقت طلب کریں گی یا پھر برطانیہ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا کہ وہ کسی معاہدے کے بغیر ہی یورپی یوین سے نکل جائے۔

اس صورتحال کے نتیجے میں ہرمنگل کو ہونے والی 90 منٹ دورانیے کی ہفتہ وار کابینہ میٹنگ منسوخ کرکے پانچ گھنٹے طویل دو میٹنگز آج کی جائیں گی۔

پہلی میٹںگ صبح 9 بجے سے دوپہر کے درمیان ہوگی، جسے ’سیاسی کابینہ‘ کہا جاسکتا ہے، جہاں وزرا حکومتی افسران کی غیر موجودگی میں اپنی پارٹی حکمت عملی اور معاملات پر بحث کریں گے۔

بعد ازاں ایک معمول کی کابینہ ملاقات ہوگی، جس کے دوران سرکاری اہلکاروں کے ساتھ حکومتی معاملات از قسم 'نو ڈیل بریگزٹ' تیاریوں پر گفتگو کی جائے گی۔

ڈاؤننگ سٹریٹ کا اصرار ہے کہ وزیراعظم کا اب بھی یہ خیال ہے کہ عام انتخابات قومی مفاد میں نہیں ہیں جبکہ ڈپٹی کنزرویٹو چیئرمین جیمز کلیورلے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کی پارٹی ’عملی طور پر‘ انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

اس مسئلے کو سیاسی کابینہ میں زیر بحث لایا جائے گا، ایک سینئر وزیر نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا، ’کوئی بھی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتا، کوئی بھی نہیں۔‘

تاہم انہوں نے کہا، ’لیکن میری پارٹی میں بہت سے اراکین پارلیمنٹ، جو وزیراعظم کی بریگزٹ ڈیل کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ اب انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں بریگزٹ چاہیے یا نہیں؟‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ