بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی عید بھی کرونا وبا کی نذر

کرونا وبا کی وجہ سے بڑی تعداد میں بے روزگار اور مالی طور پر بدحال پاکستانی مہنگے ہوائی ٹکٹس کی وجہ سے اپنے وطن میں اہل خانہ کے ساتھ عید منانے سے قاصر ہیں۔

بیرون ملک بے روزگار ہونے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد وطن واپس آنے کی خواہش مند ہے(اے ایف پی)

سعودی عرب میں پانچ سال سے کام کرنے والے سافٹ ویئر انجینیئر محمد آصف ہر سال عید قرباں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان میں مناتے آ رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔ 

مرکزی پنجاب کے ایک بڑے شہر سے تعلق رکھنے والے آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میں چار ماہ سے بے روزگار ہوں۔ اب اگر پاکستان آ گیا تو دوبارہ سعودی عرب میں نوکری حاصل نہیں کر سکوں گا، جو میں بالکل بھی نہیں چاہتا۔ 

آصف کی سابقہ آجر کمپنی نے کرونا وبا کے پھیلنے کے بعد کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کی وجہ سے سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکالا، جن میں آصف بھی شامل تھے۔ وہ اب سعودی عرب میں ہی نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ 

سعودی عرب کے علاوہ دوسرے کئی مشرق وسطیٰ اور باقی دنیا کے متعدد ممالک میں لاکھوں پاکستانی عید الاضحیٰ اپنے پیاروں سے دور دیار غیر میں گذارنے پر مجبور ہیں۔ اپنے پیاروں سے ان دوریوں کی بنیادی وجہ مہلک کرونا وائرس کی عالمی وبا ہے، جس نے دنیا کی معیشتوں اور کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق وفاقی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 90 لاکھ پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد روزگار کے سلسلے میں دیار غیر میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں میں سب سے بڑی تعداد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں رہتے ہیں، جہاں تقریباً 50 لاکھ پاکستانی باشندے کام کرتے ہیں۔ کرونا وبا کے باعث دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی گذشتہ تین چار مہینوں کے دوران بے روزگار ہو چکے ہیں۔ 

ان پاکستانیوں کی بڑی تعداد وطن واپس آنے کی خواہش مند ہے۔ تاہم وبا کے باعث فضائی رابطے منقطع ہیں اور جو محدود پیمانے پر فلائٹس موجود بھی ہیں ان کے کرائے تقریباً دو گنا بڑھ گئے ہیں۔ 

دوسری طرف خلیجی اور عرب ملکوں میں موجود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو سفری کاغذات کی مدت ختم ہونے کے باعث وہاں رک نہیں سکتی۔ ایسے پاکستانوں کے لیے بھی وطن واپس آنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے نئے کاغذات حاصل کر سکیں۔ 

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے خورشید خان کے والد دبئی میں نوکری کرتے تھے۔ وبا کے باعث ان کی نوکری ختم ہوگئی اور ہوائی جہاز کا کرایہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ واپس نہیں آ پا رہے۔ خورشید نے بتایا: 'ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پیسے جمع کر کے انہیں بھیج سکیں۔ تاہم مجھے نہیں لگتا کہ میرے والد صاحب عید ہمارے ساتھ گذار سکیں گے۔' 

حکومت پاکستان نے دنیا کے مختلف ملکوں میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے پی آئی اے کی سپیشل فلائٹس چلانے کا اہتمام کیا، جن کے ذریعہ مختلف ترجیحات کی بنیادوں پر پاکستانیوں کو واپس لایا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق اب تک ہزاروں پاکستانیوں کو ان سپیشل فلائٹس کے ذریعے ملک واپس پہنچایا گیا ہے جبکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 

متحدہ عرب امارات میں کچھ ہفتے قبل پاکستانیوں نے پاکستانی کونسل خانہ کے سامنے اس سلسلے میں مظاہرے بھی کیے۔ دبئی میں مقیم ایک پاکستانی صحافی اپنے فیس بک پیج پر لکھتے ہیں کہ دبئی میں بے روزگار ہونے والے پاکستانی کھانا کم کھاتے ہیں تاکہ فضائی ٹکٹ کے لیے پیسے بچائے جا سکیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشرق وسطیٰ کی کئی حکومتوں نے کرونا وبا کے دوران غیر ملکی کارکنوں کی مراعات میں اضافہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں قطر سرفہرست ہے جہاں حکومت نے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سات فیصد اضافہ کا اعلان کیا۔ 

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تعمیراتی کمپنی سے منسلک پاکستانی عبدالشکور نے کہا کہ کمپنی میں کام زیادہ ہونے کے باعث انہیں عید پر چھٹی نہیں مل رہی۔ انہوں نے کہا کہ بعض پاکستانی اور بھارتی باشندوں نے ہوائی جہاز کے کرایوں میں اضافے کے باعث اپنے اپنے وطن میں عید منانے کے ارادہ ترک کر دیے ہیں۔ 

امریکہ کی ریاست یُوٹا میں مقیم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ممتاز حسین ہوائی جہاز کے کرایوں میں اضافے کے باعث بڑی عید اپنے خاندان کے ساتھ منانے سے گریزاں ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ اگر وہ کسی طرح ہوائی جہاز کے انتہائی مہنگے ٹکٹس لے کر پاکستان آتے ہیں تو سنت ابراہیمی کرنے سے قاصر ہوں گے۔ 'میں نے اسلام آباد میں مقیم اپنے بچوں کو پیسے بھیج دیے ہیں کہ وہ عید پر جانور قربان کریں۔ میں حالات بہتر ہونے پر پاکستان کا چکر لگا لوں گا۔' 

امریکہ ہی میں مقیم پاکستانی اعجاز الحق نے خود عید پاکستان میں گزارنے کی بجائے اپنے بیٹے کو وہاں بلا لیا ہے۔ 'میرے بیٹے کا جولائی میں کالج میں داخلہ ہونا تھا۔ ایسے میں یا میں پاکستان جاتا یا بیٹا امریکہ آتا۔ تو میں نے فیصلہ کیا کہ بچے کی تعلیم کا حرج نہیں ہونا چاہیے۔ میں خود رک گیا اور اسے بلا لیا۔' 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان