اسلام آباد چڑیا گھر کیس: زرتاج گل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے عدالت میں چڑیا گھر کے جانوروں کے مرنے کی ذمہ داری قبول کی لیکن عدالت نے کہا کہ پورا اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ اس کا ذمہ دار ہے۔

وزیر مملکت زرتاج گل(اے ایف پی)

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر مملکت زرتاج گل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم، سیکریٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی سمیت وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے تمام ممبران کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ہاتھی کاون کی حالت زار سے متعلق ایک کیس میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ جانوروں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ عدالتی حکم کی تعمیل کے دوران جب مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کو منتقل کیا جا رہا تھا تو عملے کی مبینہ غفلت سے ایک شیر اور شیرنی ہلاک ہو گئے۔

اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پروائرل ہوئی تھی جس میں چڑیا گھر کا عملہ شیر اور شیرنی کے پنجرے کو آگ لگا کر تشدد کر رہے تھے۔ جانوروں کی ہلاکت پر گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وائلڈ لائف بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی سے جواب طلب کیا تھا اور عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔

منگل کو ہونے والی سماعت میں سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی ناہید درانی نے عدالت سے کہا کہ وہ واقعے کی تمام ذمہ داری قبول کرتی ہیں اور اس معاملے میں کابینہ ارکان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کابینہ نے وائلڈ لائف بورڈ کی منظوری دی تھی، ذمہ دار بھی وہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیکریٹری نے جواباً کہا کہ وزارت قانون نے رائے دی تھی کہ کابینہ کا کوئی رکن اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ کا رکن نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا نوٹی فکیشن کیا گیا جس کی کابینہ نے منظوری دی، کابینہ کی منظوری کے بعد ہی وہ نوٹی فکیشن عدالتی فیصلے کا بھی حصہ بنایا گیا، اس لیے ہم توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر رہے ہیں، بورڈ ممبر جو کہنا چاہتے ہیں وہ تحریری جواب میں کہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جب کریڈٹ لینے کی باری تھی تو سب چڑیا گھر کا دورہ کر رہے تھے لیکن جب کچھ غلط ہوا تو سب نے کہا ہمارا تعلق ہی نہیں، انٹرنیشنل کنونشنز انسانیت اور جانوروں کے تحفظ کے لیے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ 40 زرافے امپورٹ ہوئے اور وہ سارے کے سارے مر گئے اس لیے اب جانوروں کی درآمد پر پابندی ہونی چاہیے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے شوکاز نوٹس جاری نہ کرنے کی استدعا کی جو عدالت نے مسترد کر دی۔ عدالت نے توہین عدالت نوٹسز کے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 27 اگست تک ملتوی کر دی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات