وہ سانحہ جس نے ہجوم کو قوم بنا دیا

ویسے تو پاکستانی لاتعداد خانوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن ایک موقع ایسا آیا جب سب اختلاف ختم ہو گئے۔

چھ سال قبل ہونے والے اس واقعے نے پوری قوم کو ایک صفحے پر لاکھڑا کر دیا تھا (روئٹرز)

ملک کے کسی بھی بڑے شہر کے کسی مصروف بازار میں کھڑے رہ کر آواز لگائیے: ’پاکستانی تو سب کے سب چور ہیں، ڈاکو ہیں، کرپٹ ہیں!‘

لوگ ایک نظر آپ کو دیکھیں گے، اور اپنی راہ پر چلتے رہیں گے۔ بلکہ ہو سکتا ہے دو چار لوگ مل کر آپ کے ہم آواز ہو کر قوم کو گالی دینا شروع کر دیں۔

اب آپ جملے میں ذرا سی تبدیلی لائیے اور کہیے: ’پنجابی/ سندھی/ پختون/ بلوچی چور ہیں!‘ پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ چھریاں چل پڑیں گی، لوگ آپ کا گلا کاٹنے کے لیے لپک پڑیں گے۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ اس کے بعد آپ اپنے پیروں پر چل کر گھر نہیں جا پائیں گے۔

یہی حال فرقوں کا ہے۔ اسلام کے خلاف بات کر لیں، بچت ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر دیوبندی/ بریلوی/ شیعہ/ اہلِ حدیث کا نام لے برا کہا تو مسئلہ بن جائے گا۔

یعنی کسی شخص کو اس ملک یا اپنے مذہب سے کوئی حب نہیں ہے۔ خون کا رشتہ ہے تو اپنی ذات، اپنی زبان، اپنے فرقے کے ساتھ۔ قومی تشخص سے مراد کیا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔

پاکستان کے وراثتی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ قومی شناخت کا رہا ہے۔ تقسیم اس قدر شدید رہی کہ جب افغان جہاد کے نام پر ہیرو پیدا کیے گئے تو اُن کے سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ ان کے فرقے کی بنیاد پر کیا جانے لگا۔ افغان جہاد میں تربیت یافتہ غازی پاکستان میں مخالف فرقوں کے خلاف جہاد کرنے لگے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں واضح طور پر دو مخالف گروہ سامنے آنے لگے۔ ایک گروہ کے خیال میں یہ سب لوگ دہشت گرد اور خوارج تھے، جن کا مقدر جہنم تھا۔ دوسرے گروہ کو لگا کہ یہ ہمارے ناراض بھائی ہیں، جنہیں منا کر لانا ہمارا فرض ہے۔ ایک طویل عرصے تک ہماری فوج ان افراد سے لڑتی رہی، بے گناہ لوگ اپنی جانیں دیتے رہے، مگر نتیجہ صفر رہا۔ کیونکہ جنگیں فوجیں نہیں، عوامی جذبات جیتا کرتے ہیں۔ اور افغان جنگ کی بابت ہمارے عوام کے جذبات بہت مبہم اور متضاد تھے۔

یہ لاعلمی اور بے یقینی کا مرض قوم کے لیے کینسر بنتا جا رہا تھا۔ روزانہ سینکڑوں جانیں جاتیں۔ روزانہ مباحثے ہوتے اور روزانہ یہ کہا جاتا کہ طالبان اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ پھر 2014 کا وہ بدقسمت دسمبر آ گیا کہ جس نے کئی ماؤں کی کوکھ اجاڑ دی۔ سکول میں دہشت گرد گھس آئے۔ بچوں سے پوچھتے کہ باپ فوجی ہے یا نہیں۔ فوجی کا بچہ نکلتا تو مار دیا جاتا۔

استانی نے بچوں کو تنہا چھوڑنے سے انکار کیا تو بچوں کے سامنے زندہ جلا دی گئی۔ پرنسپل جان بچا کر بھاگنے کے بجائے بچوں پر قربان ہو گئی۔ مائیں دوپٹہ اوڑھے ایک پیر میں جوتا پہنے سڑکوں پر بھاگنے لگیں، ہائے میرا بچہ، مجھے سکول جانے دو، میرا بچہ ڈرا ہوا ہو گا۔ مگر فوجی آپریشن میں فوجی اندر کیسے جانے دیتے۔ پورے ملک نے دیکھا کہ ماؤں کے بچے لہولہان ہوئے۔

اس سانحے کی رپورٹ آج بھی منظرِ عام پر آنے کی منتظر ہے۔ یہ سانحہ کس قدر اندوہ ناک ہے، بیان کرنا ممکن نہیں۔ مگر یہی وہ سانحہ ہے کہ جس نے پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا مرحلہ پیدا کیا کہ یہ قوم بالآخر یک زباں ہو کر دہشت گردوں کے خلاف ہو گئی۔ نئے قانون بنے۔ آپریشن کیے گئے اور اسی کے نتیجے میں گذشتہ چھ برس میں دہشت گردی کا بڑی حد تک گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔

(یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ