حاصل بزنجو: وفاق میں بلوچستان کی مضبوط آواز خاموش ہوگئی

پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو جمعرات کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے میر حاصل بزنجو کے انتقال پر دس روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے(تصویر: بشکریہ آرٹس  کونسل   )

 بلوچستان کے سب سے قدیم سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو جمعرات کو انتقال کرگئے۔ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔

حاصل بزنجو کے انتقال کی تصدیق نیشنل پارٹی کے مرکزی سوشل میڈیا سیکرٹری سعد دیوار نے کی۔ انہوں نے بتایا کہ 'میر حاصل بزنجو کو آج طبیعت ناساز ہونے پر کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کا علاج جاری تھا, تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے۔'

ان کے انتقال پر سیاسی شخصیات نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ دوسری جانب نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے میر حاصل بزنجو کے انتقال پر 10 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، اس دوران پارٹی پرچم سرنگوں رہے گا۔

میرحاصل خان بزنجو کے والد میر غوث بخش بزنجو کی زندگی کے حوالے سے کتاب کے مصنف اور معروف دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق میر حاصل بلوچستان کے لیے وفاق میں مضبوط اور توانا آواز تھے۔ 'وہ کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہی طلبہ سیاست میں متحرک ہوئے اور اپنے والد میر غوث بزنجو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست کرتے رہے۔'

شاہ محمد مری سمجھتے ہیں کہ میر حاصل کے خاندان خصوصاً ان کے والد غوث بخش بزنجو نے یہاں سیاست کی شروعات کیں۔ میر غوث بزنجو نے 1920  میں علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد جتنی سیاسی جماعتیں بنیں، وہ انہی کا تسلسل ہے۔

(تصویر: حاصل بزنجو ٹوئٹر اکاؤنٹ)


شاہ محمد مری نے مزید بتایا کہ میر حاصل نے وفاق میں رہتے ہوئے نہ صرف بلوچستان کے وسائل کے لیے آواز بلند کی بلکہ وہ بلوچستان میں امن کے لیے مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے بھی حامی رہے اور وفاق کی پالیسوں پر تنقید بھی کرتے رہتے تھے۔

شاہ محمد مری کے مطابق ان کا موقف تھا کہ 'ہمیں نیشنل پارٹی سمیت اپوزیشن کی سیاست کو مضبوط کرنا چاہیے اور بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کو تنظیم سازی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔'

سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ انہوں نے وفاق میں اپوزیشن کا بہترین رول ادا کیا، وہ سنگل اپوزیشن کے حامی رہے اور بلوچستان کے حقوق کے لیے مرکز میں مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ 2018 میں انہوں نے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا، تاہم انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن ہارنے کے بعد ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا: 'آج مجھے پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔'

ابتدائی زندگی 

میر حاصل بزنجو نے 1958 میں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو کے گھر میں آنکھ کھولی۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم مڈل ہائی سکول نال سے حاصل کی، جس کے بعد ان کا خاندان کوئٹہ آگیا، جہاں انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔ 1977 میں میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے 1979 میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کیا۔80 کی دہائی میں وہ کراچی چلے گئے جہاں جامعہ کراچی سے بی اے آنرز کرنے کے بعد انہوں نے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے پسماندگان میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ ان کے تین بھائی ہیں۔

عملی سیاست

انہوں نے 70 کی دہائی میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔1972 میں وہ بی ایس او نال زون کے صدر اور بعد میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے، تاہم 1987 میں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف انہوں نے تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلی۔

میرحاصل بزنجو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف تشکیل دیے جانے والے قوم پرست اور ترقی پسند طلبہ کے اتحاد یونائیٹڈ سٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی رہے۔

1985 میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں بھی وہ متحرک رہے۔ 1988 میں انہوں نے پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نال سے انتخابات میں حصہ لیا ۔1989 میں والد کی وفات کے بعد وہ پاکستان نیشنل پارٹی کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہو گئے، جس کی قیادت ان کے بڑے بھائی میر بیزن بزنجو نے سنبھالی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیزن بزنجو 1990کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے، بعد ازاں انہوں نے ایک نشست چھوڑ دی جس پر حاصل بزنجو نے انتخاب لڑا اور پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

1996 میں انہوں نے پاکستان نیشنل پارٹی کو بلوچستان نیشنل پارٹی میں ضم کردیا۔1997کے عام انتخابات میں وہ دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2002 میں ان کی پارٹی بلوچستان ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل پارٹی آپس میں ضم ہوگئیں جس کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ڈپٹی آرگنائزر حاصل بزنجو منتخب ہوئے۔

جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والے حاصل بزنجو نے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن 2009 میں سینیٹ کے انتخاب میں وہ نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ وہ وفاق میں مسلم لیگ ن کے حامی اور مضبوط اتحادی رہے اور 2013 کے انتخابات میں ان کی جماعت نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کیا۔ بعدازاں 2014 میں نیشنل پارٹی کا صدر منتخب ہونے کے بعد حاصل بزنجو کو پورٹس اور شپنگ کی وزارت ملی تھی۔

نیشنل پارٹی کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق میر حاصل بزنجو کا جسد خاکی کراچی سے ضلع خضدار میں ان کے آبائی علاقے نال لایا جائے گا، جہاں آبائی قبرستان میں ان کی تدفین ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست