کہاوت مشہور ہے کہ ساری رات کہانی سنتے رہے، صبح اٹھ کر پوچھنے لگے: ’زلیخا مرد تھی یا عورت؟‘ بالکل یہی شکوہ اب بلوچستان کے سینیئر پارلیمانی سیاست دان بھی اپنے دوسرے ساتھیوں سے کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے بقول لاکھ رونے، چیخنے چلانے اور احتجاج کرنے کے بعد بھی ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان دا مسئلہ کی اے؟
بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل نے پچھلے دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑتے ہوئے بھی یہی گلہ کیا کہ ان کے لاکھ وضاحت کے باوجود بھی پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ آخر ہے کیا؟
بلوچستان کے معاملات پر ایک غیر بلوچ صحافی دوست سے گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے بھی ایسا ہی کچھ کہا۔ دوست کہتے ہیں کہ اب انہیں بھی عادت سی ہو گئی ہے کہ جب بھی کسی ویب سائٹ پر بلوچستان سے متعلق کوئی خبر لگتی ہے، تو وہ لنک پر بعد میں کلک کرتے ہیں پہلے کمنٹس پڑھتے ہیں جہاں ایسے لوگوں کی یلغار ہوتی ہے جو پڑھے بغیر ہی کود پڑتے ہیں اور غداری یا محب الوطنی کی سندیں پہلے بانٹتے ہیں اور بعد میں پوچھتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں کرونا لاک ڈاؤن کے سبب تعلیم ادارے بند ہیں لیکن ملک کی تمام جامعات اور ہائر ایجوکیشن کے سرابرہ ادارے ایچ ای سی نے جامعات کو آن لائن کلاسیں لینے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد اکثر جامعات نے کلاسوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
نیا زمانہ ہے، ترقی کا دور ہے، اس لیے اچھا قدم ہے، مگر اس کے باوجود ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف بلوچ طالب علم سڑکوں پر ہیں اور بھوک ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ گوادر میں کئی کلومیٹر دور دراز کے طالب علموں نے احتجاجی جلوس نکالا اور بلوچستان کے اکثریت شہروں میں بلوچ طلبہ و طالبات پریشان اور غم و غصے میں ہیں جبکہ اسلام آباد میں بلوچ طلبہ نے دھرنا دے رکھا ہے۔ پولیس آتی ہے، دھرنا ختم کراتی ہے اور سوال دہراتی ہے کہ ’مسئلہ کی اے؟‘
بلوچستان کا جغرافیہ، حالت زندگی اور سہولیات سے متعلق اگر ملکی دانشور طبقے کو کچھ علم ہے بھی تو بس اتنا کہ وہاں معدنیات ہیں، گوادر کی گہری بندرگاہ ہے اور سردار ہیں جو ترقی اور تعلیم کے خلاف ہیں بس۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لگتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس بھی بلوچستان کے بارے میں یہی معلومات ہیں، جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچستان دا مسئلہ کی اے۔ بلوچ طالب علم آن لائن تعلیم کے اس نظام کو ایک طبقاتی نظام تعلیم سمجھتے ہیں جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے شہریوں کے لیے شاید آسان اور ممکن ہو مگر بلوچستان کے لیے ناممکن ہے کیونکہ بلوچستان کے طالب علم کے مسائل، ماحول اور حالات بالکل مختلف ہیں۔ یہاں اول تو کسی طالب علم کے پاس وہ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس اور سمارٹ فون نہیں جن سے آن لائن کلاسیں منعقد ہو سکیں اور اگر بےچارہ یا بےچاری کہیں سے مانگ تانگ کے ڈیوائس لے بھی آئے تو صوبے کا بڑا حصہ انٹرنیٹ سے محروم ہے۔
صرف ایک مثال دیکھیے۔ ضع کیچ آبادی کے لحاظ سے صوبے کا دوسرا بڑا ضلع ہے اور شرح خواندگی جہاں باقی صوبے کی نسبت بہتر ہے۔ اس ضلعے میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
ایچ ای سی کو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ ایک بلوچ طالب علم آواران، پشکان، واشک یا منگچر و کاہان سے نکل کر ملک کے بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں تک کیسے پہنچتا ہے۔
بلوچ طالب علم وہ بدقسمت طبقہ ہے جسے پرائمری کی کلاسوں کے لیے نصابی کتابیں دستیاب ہیں نہ استاد، نہ سکول کی چھت میسر ہے اور نہ ہی لیبارٹریاں۔ اگر ان سب کے باوجود انٹرمیڈیٹ تک پہنچ گیا اور اپنے باقی دوستوں کی طرح لاپتہ نہیں ہوا تو کسی بڑے شہر کی تعلیمی ادارے میں ایک شہری تعلیم یافتہ گھرانے کے طالب علم کے ساتھ بیٹھ کر انٹری ٹیسٹ دیتا ہے اور اسے پاس کرکے ان ہی کورسز کو پڑھ کر امتحان دیتا ہے جو اس کے لیے انجان ہوتے ہیں کیونکہ اس کا پس منظر کچھ بھی نہیں ہوتا ہے مگر پھر بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور اب اسے صرف اس لیے تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے کہ وہ بدقسمتی سے محروم بلوچستان میں کیوں پیدا کیوں ہوا ہے۔
بلوچستان میں ذرائع روزگار کیا ہیں، ان کا احوال بھی سن لیجیے۔ صوبے کا ایک بڑا کاروبار سرحد سے وابستہ ہے۔ اس اذیت ناک کاروبار کا مطلب روز موت کے کنویں سے گزرنا ہے جہاں قدم قدم پر گولی لکھی ہوئی ہے۔
ایک اور کاروبار ماہی گیروں کا ہے۔ یہ وہ کمرتوڑ مشقت والا پیشہ ہے جس سے وابستہ ماہی گیر اپنی شکستہ کشتیوں اور پھٹے ہوئے جال لیے رات کو اکثر مایوس ہو کر لوٹتے ہیں کیونکہ ان کے کھلے سمندر میں پہنچنے سے پہلے غیر قانونی ٹرالر مافیا جدید جالوں سے مچھلیوں کا صفایا کر چکا ہوتا ہے۔
بلوچستان کے تقریباً ہر گھر میں کئی مرد و جوان منشیات کے عادی ہیں جہاں عورتیں کپڑوں پر کشیدہ کاری کر کے گھر کا گزر بسر چلاتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ بڑے شہروں میں بیٹھے صنعت کار ان محنت کشوں سے کوڑی کے بھاؤ مال خریدتے ہیں اور انہیں علاقائی دستکاری کے نام پر سونے کے بھاؤ بیچتے ہیں۔
یہ لوگ محنت مشقت کر کر کے اور اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کے اپنے بچوں کو ملک کے بڑے شہروں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں مگر اس وبا کی وجہ سے بچے واپس اپنے اپنے علاقوں میں آنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انہیں مزید نفسیاتی مرض میں مبتلا کر کے یہ پیغام دیا ہے مسئلہ کی ہے جو تم لوگ بھی پڑھنے نکلے ہو۔
بلوچستان جہاں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے، جہاں بجلی کی یہ حالت ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کی طرح صبح دوپہر شام ہی گھنٹے آدھ گھنٹے کے لیے آتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے، یہاں آن لائن کلاسیں یا تو ایک جدید قسم کا مذاق ہے یا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
اب ہائر ایجوکیشن کو کوئی کیسے سمجھائے کہ ملک کی سرحدی حدود اسلام آباد سے کراچی تک نہیں، جیونی سے سکردو تک پھیلی ہوئی ہیں جہاں کے بچے بھی پڑھتے ہیں اور وہ بھی وہاں جہاں آپ جیسے لاکھوں تنخواہیں لینے والوں کے بچے بھی زیر تعلیم ہیں جنہوں نے اب تک یہ خیالوں میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ بلوچستان دا مسئلہ کی اے؟