پاکستان میں کرونا وبا کے باعث دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے اور طلبہ کو ایک غیریقینی صورت حال کا سامنا ہے۔
ایک ایسے ہی طالب علم عبدالعزیز چار ماہ قبل پاکستان میں کرونا وبا پھوٹنے کے بعد اسلام آباد انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اپنا بستر، چند کتابیں اور دیگر ضروری سامان اٹھا کر بلوچستان کے ضلع خضدار کے دور دراز آبائی علاقے باغبانہ لوٹ آئے۔
عبدالعزیز نے بتایا کہ جب وہ اسلام آباد سے واپس لوٹے تو ان کا زیادہ وقت کتابیں پڑھنے اور گھر میں رہ کر ہی گزرتا تھا۔ تاہم انہیں گذشتہ دنوں اپنے ایک اور ساتھی طالب علم سے خبر ملی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر میں یونیورسٹیوں کے طالب علموں کے لیے آن لائن کلاسز شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں کے طالب علموں کے لیے تو یہ ایک خوش خبری تھی کہ وہ اس طرح بغیر کسی تعطل کے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ سکیں گے لیکن بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے طالب علموں کے لیے یہ خبر پریشان کن تھی کیونکہ ان علاقوں میں انٹرنیٹ تو کیا بجلی کی سہولت بھی میسر نہیں۔
خود عبدالعزیز ضلع خضدار کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں دن میں دو گھنٹے بجلی ملتی ہے اور لوگ ایک فون کال کے لیے سگنل تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
عبدالعزیز کے بقول، ایک فون کال کے لیے انہیں گھروں سے دور اونچی جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔ 'جہاں ٹوجی کی بھی سہولت تک میسر نہیں وہاں آن لائن ویڈیو لنک کے ذریعے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔'
عبدالعزیز کی طرح اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے بلوچستان کے دیگر سینکڑوں نوجوانوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اس فیصلے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شہروں میں آن لائن کلاسز کو مسترد کرنے کے حوالے سے ایک احتجاجی مہم کا آغاز ہوچکا ہے، جس میں بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد، بلوچ سٹوڈنٹس کونسل ملتان، بلوچ ایجوکیشنل کونسل کراچی اور بلوچ سٹوڈنٹس کونسل لیاری شامل ہیں۔
بلوچ سٹوڈنٹس الائنس کے مطابق، گلگت بلتستان، قبائلی اضلاع، سندھ، بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ جات میں انٹرنیٹ اور بجلی دونوں کی سہولت میسر نہیں۔
الائنس کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد تقریباً 50 ہزار ہے، جن میں سے 70 فیصد طالب علم صوبے سے باہر زیر تعلیم ہیں۔
بلوچستان کے ضلع خضدار میں آن لائن تعلیم کے فیصلے کے خلاف علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے حفیظ بلوچ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کے حوالےسے فیصلے زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر کیے جارہے ہیں۔
حفیظ بلوچ کہتے ہیں کہ وہ آ ن لائن کلاسز کے خلاف نہیں لیکن چاہتے ہیں کہ جو بھی فیصلے ہوں انہیں طالب علموں کی مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔
بلوچ سٹوڈنٹس الائنس کے مطابق بلوچستان کے 14 علاقے واشک، خاران ،سوراب، قلات، مستونگ، تربت، پنجگور، آواران، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، کاہان، بولان اور بسیمہ میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں۔
حفیظ کے مطابق، انہوں نے اس فیصلے کے خلاف ایک آن لائن پٹیشن کو لیٹر کی صورت میں بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھیجا جس کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔
بلوچ سٹوڈنٹس الائنس کے مطابق انہوں نے کراچی میں ایک تین روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے بعد اب خضدار میں یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ الائنس کی کال پر بلوچستان کے ضلع پنجگور اور سوراب میں بھی ریلیاں نکالی گئیں اور طلبہ نے بینرز اٹھا کر اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی۔
احتجاج میں شامل حفیظ نے آن لائن کلاسز کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بصورت دیگر احتجاج کو مزید بڑھایا جائے گا۔
عبدالعزیز جیسے طالب علموں کے لیے اب اس صورت حال میں ایک راستہ بچ جاتا ہے کہ وہ سمسٹر منجمد کردیں، لیکن عبدالعزیز سمجھتے ہیں اس سے ان کا سال ضائع ہوجائے گا اور تعلیمی کیریئر کو بھی بریک لگ جائے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر ردعمل جاننے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔