عوام اور اداروں کے درمیان عدم اعتماد کیسے ختم کیا جائے؟ تیسری قسط

مقامی افراد کے مطابق ان زمینی تنازعات کی جڑبرطانوی دور کی وہ غیر مناسب لکیریں ہیں جو 1935 میں انگریز فرمانرواؤں نے مراعات کے طور پر اپنے حمایتی ملکان کو خوش کرنے کے لیے کھینچی تھیں۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر سابق قبائلی اضلاع میں زمین کے معاملے پر ہونے والے تصادموں کے سلسلے کی تیسری اور آخری قسط ہے۔ اس سلسلے کی پہلی قسط آپ یہاں اور دوسری قسط یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

پانچ اگست کو ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ملک دین خیل کے ایک چھوٹے سے قبیلے عمر خانخیل کے ایک مسلح جتھے نے زمین کے تنازعے پرکمرخیل کے خلاف حملہ کر کے پانچ افراد کو زخمی کر دیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق دونوں حریف قبائل کے درمیان موضع گبین جبہ میں ڈیڑھ سو ایکڑ پر محیط متنازع زمین پر اٹھنے والی جنگیں اکثر و بیشتربڑے فسادات کا سبب بنتی رہی ہیں۔

باڑہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کمر خیل قبیلے کے ملک یار خان نے حکومت سے اپیل کی کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر مداخلت کرکے مسئلے کا فوری اور پرامن حل نکالیں تاکہ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کسی بھی تاخیر کی صورت میں حالات قابو سے باہر ہوگئے تو ذمہ داری حکومت کے سر ہو گی۔

ادھر ضلع مہمند میں سات اگست کو صافی گرینڈ جرگہ کے مسلح لشکرنے چناری چوک اور محمد گٹھ میں متنازع زمین کو رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی پاداش میں مخالف فریق کے دو گھروں کو نذرآتش کر دیا۔

 جرگہ ممبر محمد زاہد مہمند کے مطابق گھر نذر آتش کرنے پر مزاحمتی پارٹی نے فائرنگ شروع کر دی جس کے جواب میں لشکر کی جانب سے جوابی فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے۔ ضلع خیبر سے سماجی وسیاسی کارکن ملک عطااللہ کے مطابق نئے ضم شدہ اضلاع میں زمینوں کے حوالے سے بڑھتے تنازعات اورحکومتی مشینری کی موجودگی میں لوگوں کی طرف سے گھروں کو مسمار کرنے کا عمل حکومت کے خلاف عوام کی عدم اعتماد کا مظہر ہیں۔

عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان

 نئے ضم شدہ اضلاع میں پچھلے ایک صدی سے رائج ایف سی آر کے تحت مقامی لوگوں اور ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور محرومی کے ایک ایسے احساس نے جنم لے لیا جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں حکومت سے بیزاری اور بیگانگی کے جذبات کو مزید پختہ کر دیا۔

 دو مئی 2019 کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مہمند ڈیم کا افتتاح کیا تو عوام سے وعدہ کیا کہ حکومت متاثرین کو ایک ایکڑ زمین کے بدلے پانچ سے چھ لاکھ روپے ادا کرے گی اورمتعلقہ عملے کی تقرری میں مقامی افراد کو ترجیح دے گی۔ لیکن مقامی لوگوں کے مطابق حکومت اپنے وعدوں سے مکر گئی ہے۔

حکومت اور متاثرین مہمند ڈیم کی طرف سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی کے صدر اقبال گل مہمند نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ حکومت نے ان سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹھیکوں کے اجرا میں مقامی ٹھیکیداروں کو ترجیح دے گی، ڈیم سے بننے والی آٹھ سو میگا واٹ بجلی میں سے سو میگاواٹ مقامی لوگوں اور خصوصاً صافی، پنڈیالی، پڑانگ غار اور برنگ تحصیل کے لوگوں کومفت مہیا کرے گی اور ان زمینوں کی وجہ سے ضائع ہونے والے درختوں اور معدنیات کے عوض متاثرین کو معقول معاوضہ بھی دے گی لیکن حکومت نے ابھی تک ایک روپیہ بھی ہمیں نہیں دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا گوکہ حکومت کو ڈیم کی تعمیر کے لیے کل نو سو ایکڑ زمین درکار تھی لیکن اس کے عوض حکومت نے ابھی تک صرف عیسیٰ خیل اور برہان خیل کے حصے کی چھ ہزار پانچ سوسے زائد ایکڑ زمین کے گرد خاردار تاریں لگا کر اسے اپنے ہی مالکان کے لیے علاقہ ممنوع قراردیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کریگی وہ اپنی تحریک چلاتے رہیں گے۔

مقامی صحافی شاہ نواز ترکزئی نے حکومت پر عوام کے عدم اعتماد کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ورسک ڈیم کا حوالہ دیا جس سے بجلی کی پیداوار 1961 میں شروع ہوئی لیکن 1954 میں حکومت اور ترکزئی، ملاگوری قبائل کے درمیان ہوئے ایک معاہدے کے تحت بجلی کی رائلٹی کی مد میں ایک پیسہ فی یونٹ کے حساب سے ملنے والی رقم میں سے ایک پائی بھی ابھی تک لوگوں کو نہیں ملی ہے۔ مقامی لوگوں کے ایک اندازے کے مطابق ڈیم 2005 تک 37 ارب یونٹ بجلی پیدا کر چکا تھا۔

ضلع خیبر سے بلند ہوتی صدائیں

کچھ ایسی ہی آوازیں حال ہی میں ضلع خیبر سے بھی اٹھتی رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے خیبر پاس اکنامک کوریڈور کے متاثرین نے اپنی جائیدادوں کے بدلے معاوضے کے سوال پر 14 گست کو لنڈی کوتل میں دو گھنٹوں کے لیے پاک افغان شاہراہ کو علامتی طورپر بند کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

خیبرپاس اکنامک کوریڈورپاکستان کو افغانستان کے زریعے وسطی ایشیائی ممالک سے ملانے کا ایک بڑامنصوبہ ہے جس سے حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 60 ہزار سے ایک لاکھ تک مقامی لوگوں کوروزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور علاقہ ترقی اور خوشحالی کی نئی راہ پر گامزن ہو گا۔

اس منصوبے کی خاطرتختہ بیگ سے سور کمر بھگیاڑی چیک پوسٹ تک آٹھ کلومیٹر لمبے خیبر بائی پاس سے مقامی لوگوں کی جائیدادیں متاثر ہوئی ہیں، اور وہ حکومت سے اپنے مطالبات کے حق میں وقتافوقتا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔

حکومتی وضاحت

حکومت اسے انضمام مخالف قوتوں کی طرف سے قومی ترقی اور خوشحال فاٹا کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ قرار دیتی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے سیفران ساجد مہمند کے مطابق حکومت نے متاثرین کو معقول معاوضوں کی ادائیگی کے لیے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

انہوں نے کہا حکومت نے عوام کی احساس محرومی کو ختم کرنے کی خاطر علاقے کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے ساڑھے چار ارب روپے پہلے ہی مختص کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ رقم متاثرہ علاقوں کے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو گی جس سے علاقے میں طبی اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ رابطہ سڑکوں کا جال بھی بچھے گا۔

 ممکنہ حل کیا ہے؟

مقامی افراد کے مطابق ان زمینی تنازعات کی جڑبرطانوی دور کی وہ غیر مناسب لکیریں ہیں جو 1935 میں انگریز فرمانرواؤں نے مراعات کے طور پر اپنے حمایتی ملکان کو خوش کرنے کے لیے کھینچی تھیں۔

لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قبائل کے درمیان زمین کے مسئلے پر اٹھنے والے تنازعات کا ذمہ دار سابق فاٹا میں ایک صدی سے رائج وہ ظالمانہ نظام ہے جس نے عوام کو زمین کے ملکیتی حقوق کے ساتھ ساتھ دیگربنیادی پیدائشی حقوق سے بھی محروم رکھا ہے۔

بہرحال وجہ جو بھی ہو ضم شدہ اضلاع میں امن وامان کی بحالی اورپائیدار امن کے قیام کی خاطر زمینوں پراٹھنے والے تنازعات حکومت کی طرف سے فوری حل کے متقاضی ہیں۔ ان تنازعات کو ہوا دے کرانضمام مخالف عناصر اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے اندر موجود دہشت گرد جنگی ماحول اور افراتفری کی صورت حال کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ مسئلے اس وقت تک قبائل کے درمیان نفرتوں کو ہوائیں دیتے رہیں گے جب تک ضم شدہ اضلاع میں بندوبست اراضی کا منظم اور مستقل نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔

ضلع کرم سے تعلق رکنے والے قومی اسمبلی کے ممبر ساجد طوری ان مسائل کا حل ایک مضبوط ریونیو نظام کے قیام میں دیکھتے ہیں۔ ضلع مہمند سے سیاسی رہنما جنگریز خان نے تجویز پیش کی کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر ہر ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ ریونیو آفیسر کی تعیناتی عمل میں لے آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تنازعات کے مستقل حل کے لیے حکومت کو چاہیے کہ مذکورہ مقامات پر جہاں جہاں جنگ چھڑنے کا خطرہ ہو وہاں پہلی فرصت میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کر کے بامقصد مذاکرات کا آغاز کرے۔ وسط مدتی حکمت عملی یہ ہو کہ حکومت ضم شدہ اضلاع میں بندوبست اراضی کا ایک منظم اور مستقل نظام نافذ کیا جائے جس سے علاقے کے عوام کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ ملکیتی حقوق ملیں، لیند ریکارڈ کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کیا جائے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی نظام کو رائج کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہر ضلعے کی سطح پر ڈسٹرکٹ ریونیوآفیسر (ڈی آر او) کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔

طویل مدتی حکمت عملی کے طور پر حکومت کو چاہیے کہ عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق متاثرین کو ان کی جائیدادوں کے عوض معقول معاوضہ دیا جائے تاکہ حکومت پر ان کا اعتماد بحال ہو اور وہ جاری منصوبوں کو اپنا سمجھ کر ان منصوبوں کی بروقت تکمیل اور علاقے کی ترقی میں بھرپور طریقے سے حصہ ڈالیں۔  

ماہرین کے مطابق اگر حکومت نے ان متاثرین کو معقول معاوضہ ادا نہ کیا اور ان کے جائز مطالبات کو ماننے سے انکار کیا تو بعید نہیں کہ ضم شدہ اضلاع کے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی یہ خلیج مزید بڑھتی چلی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ