قبائلی اضلاع میں زمین پر جھگڑے جو ہزاروں لوگوں کی زندگیاں لے گئے

نئے ضم شدہ اضلاع میں زمین کی ملکیت پر مسلح تصادم بڑھ رہے ہیں جن کی وجہ سے علاقے میں قبائل کے درمیان جھڑپیں اب معمول بن چکی ہیں۔

(اے ایف پی)

یہ تحریر سابق قبائلی اضلاع میں زمین کے معاملے پر ہونے والے تصادموں کے سلسلے کی پہلی قسط ہے۔ اس کے دوسرے حصے آپ کل اور پرسوں پڑھ سکیں گے۔

2018 میں خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد گو نئے ضم شدہ اضلاع میں انتظامی، سیاسی، آئینی اور اقتصای اصلاحات کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن طویل عرصے تک ایک جداگانہ طرز حکمرانی کے تحت رہنے کی وجہ سے اس جنگ زدہ علاقے میں وقت کے ساتھ ساتھ نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

لیویز اور خاصہ داروں کا پولیس میں انضمام کا مسئلہ ہو یا مقامی حکومتوں کے قیام میں درپیش مسائل، عدالتی نظام کے لیے سٹاف، انفراسٹرکچر اور دیگر وسائل کی فراہمی کا معاملہ ہو یا متاثرین جنگ کی دوبارہ آبادکاری کا، یہ سارے مسائل وقتاً فوقتاً حکومتی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے رہے ہیں لیکن جو مسئلہ آج کل حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے، وہ ہے نئے ضم شدہ اضلاع میں زمین کی ملکیت پر بڑھتے مسلح تصادم جس کی وجہ سے علاقے میں قبائل کے درمیان جھڑپیں اب معمول بن چکی ہیں۔

بالش خیل اور پاراچمکنی قبائل کے درمیان مسلح تصادم

گذشتہ ماہ ضلع کرم کے بالش خیل نامی علاقے میں شیعہ بالش خیل اور سنی پاراچمکی کے مابین زمین کے تنازعے پر ایک خونریز جھڑپ کے نتیجے میں 18 افراد جان سے گئے اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پارا چمکنی قبیلے کے کچھ افراد نے بالش خیل کے علاقے میں ایک متنازع علاقے پر گھر بنانا شروع کر دیے۔

جواب میں بالش خیل نے ان کو روکنا چاہا تو دونوں اطراف سے فائرنگ کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسہ شروع ہو گیا جو تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہا۔ اس دوران دونوں طرف سے بھاری اسلحے کا آزادانہ استعمال ہوتا رہا۔ اس خونریز تصادم کو کنٹرول کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ اور قبایلی زعما کی طرف سے کی گئی کوششوں کی بدولت فریقین کے مابین عارضی جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پاگیا ہے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق کسی متوقع جنگ کے بادل ابھی بھی علاقے پر منڈلا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرم میں موجود ایک مقامی صحافی محمد جاوید کے مطابق جنگ بندی کے بعد فریقین پچھلے ایک ماہ سے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں اور مسئلہ بخیر وخوبی حل نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ سامنے آسکتا ہے۔

جنت نظیر کرم لالہ زار سے خارزار تک

بالش خیل لور کرم کے صدر مقام صدہ کے قریب واقع 2007 سے متنازع علاقہ چلا آ رہا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ضلع کرم میں 2007 کے فرقہ ورانہ فسادات اور بعد ازاں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔

اس کے بعد علاقے میں آگ اور خون کا وہ کھیل شروع ہوا جو تقریباً تین سال تک مسلسل جاری رہا۔ اس دوران ٹل پارا چنار روڈ ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند رہا اور پشاور سے اپر کرم جانے کے لیے لوگ افغانستان کے راستے اپنے پیاروں اور رشتہ داروں سے ملنے جاتے تھے۔

بالآخر پانچ فروری 2011 کو معاہدہ مری کے تحت جنگ بندی عمل میں لائی تو گئی لیکن اس سے پہلے یہ فسادات دو ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا اور تقریباً 35 سو کے قریب لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ معاہدہ مری کے تحت جب دونوں قبائل کے لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے تو متنازع زمین پر فسادات پھوٹ پڑے جو تب سے لے کر آج تک مختلف جھڑپوں کی صورت میں جاری و ساری ہیں۔

تاریخ کا سبق، تصادم نے قبائل کے درمیان نفرتوں کو کیسے ہوا دی؟

 تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنگوں نے ماضی میں قوموں کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ اس واقعے سے صرف ایک سال قبل 2006 میں صدہ میں مسوزئی اور پاراچمکنی قبائل کے درمیان زمین کے ایک ایسے ہی تنازعے پر چھڑنے والی جنگ میں بیسیوں افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑاتھا۔

یہ جنگ افغان طالبان کی مداخلت پر اس وقت ختم ہوئی جب ان کو فریقین کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے باقاعدہ طور پر دعوت دی گئی۔ اسی باضابطہ دعوت کی بنیاد پر ان کو علاقے میں آباد ہونے کا پکا جواز مل گیا۔ دوسری طرف 2007 میں ہی حکومت کی طرف سے شمالی وزیرستان میں ازبک جنگجوؤں کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے نتیجے میں ان کے حامی جماعت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بھی شمالی وزیرستان سے بے دخل ہونا پڑا اور نتیجتاً وہ آ کر وسطی کرم میں آباد ہو گئے۔ اسی سال علاقے میں فرقہ ورانہ فسادات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی ایک نئی لہراٹھ گئی جو اہل علاقہ کی تباہی پر منتج ہوئی۔

ضلع کرم کے علاقہ کنج علی زی، بشارا، سرہ گلہ، شلوزان اور کرمان میں اس قسم کے واقعات ماضی میں وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زمین کے حوالے سے مختلف قبائل کے درمیان اس قسم کے تنازعات صرف کرم تک محدود نہیں ہیں بلکہ انہوں نے پورے ضم شدہ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

اس مضمون کی دوسری قسط میں ہم انہی تنازعات کا جائزہ لیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ