قبائلی اضلاع میں انتخابات سے کیا فائدہ ہوا؟

انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ ضلع خیبر جیسے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں خواتین امیدواروں نے عوامی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔

یہ انتخابات اس بڑے سیاسی عمل کا ایک چھوٹا سا تجربہ تھا جس سے ہم آگے جاکر سیکھیں گے۔ (اے ایف پی)

 خیبر پختونخوا کے نئے اضلاع میں بالآخر صوبائی انتخابات کا معرکہ سر ہوگیا۔ یہ انتخابات کئی حوالوں سے اہم ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران مخالف امیدواروں کی جانب سے مسلسل حکمران جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں پرحکومتی پشت پناہی کے الزامات لگتے رہے۔

کئی امیدواروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو شکایات موصول ہوئیں کہ ان کے مخالف امیدوار سیاسی مہم کے دوران خطیر سرمائے کا بےدریغ استعمال کر کے انتخابی مہم کے لیے بنائے گئے ظابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں کرفیو اور دفعہ144  کے نفاذ کی وجہ سے مہم متاثر ہوئی تو بعض سیاسی پارٹیوں کی جانب سے قبائلی مشران کے حق میں حکومت کی جانب سے مرعات کی بحالی انتخابی دھاندلی کا حصہ قرار دیا گیا۔

لیکن یہ سارے الزامات اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب انتخابات کے غیررسمی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ انتخابی نتائج کے مطابق سیاسی میدان آزاد امیدواروں کے ہاتھ رہا جنہوں نے کل چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

عام انتخابات میں اس قسم کے سوالات کا اٹھنا ایک فطری عمل ہے۔ ممکن ہے حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے کچھ کمی یا کوتاہیاں بھی ہوئی ہوں لیکن ان کی وجہ سے  بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے پورے سیاسی عمل کو مسترد کرنا جمہوری رویوں  کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ انتخابات ایک ایسے علاقے میں ہوئے جو گذشتہ ایک صدی سے ایف سی آر کے، جسے عرف عام میں کالا قانون کہا جاتا ہے، تحت رہے ہیں۔ اسی تناطر میں دیکھا جائے تو یہ انتخابات اس بڑے سیاسی عمل کا ایک چھوٹا سا تجربہ تھا جس سے ہم آگے جاکر سیکھیں گے۔

 استعماری قوتوں کے بنائے اس قانون کے وہ تلخ تجربات ابھی ہم بھولے نہیں ہیں جس کے تحت ایک عام آدمی تو کیا بھاری بھر کم قبائلی زعماء بھی ایک پولیٹکل ایجنٹ کے سامنے بات کرنے سے کتراتے تھے۔ لیکن ان انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ ضلع خیبر جیسے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں خواتین امیدواروں نے عوامی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ دو لاکھ سے زائد خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ اس سیاسی عمل کی جیت ہے جس پر انضمام مخالف قوتیں طرح طرح کی تنقید کر کے نہیں تھکتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 آج تک پوری دنیا میں قبائلی علاقہ جات کا صرف منفی تاثر گیا لیکن ان انتخابات کے پرامن انعقاد اور خواتین کی بھرپور شرکت سے عالمی برادری کو ایک مثبت پیغام دیا گیا ہے۔

قبائلی عوام کی موجودہ مایوسیاں اور محرومیاں اس وقت بڑھنی شروع ہوئیں جب ان کو سیاسی عمل سے نکالا گیا اور ان کو فیصلہ سازی کے حق سے محروم کر دیاگیا۔ اس اقدام کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے۔

عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی بڑھتی خلیج نے تیسری قوتوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ سابق فاٹا کے سیاسی سٹیج پر اپنے لیے جگہ بنایں۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران نئے ضم شدہ اضلاع کو دہشت گردی کے ناسور نے جس بیدردی سے تباہ وبرباد کیا اس کا ازالہ تو شاید ہی ہوسکے لیکن وقتی طور پر قبایلی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان کو سیاسی عمل کا حصہ بنانا ازحد ضروری تھا۔ تاکہ عوام کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اب جس سیاسی اور انتظامی نطام کا وہ حصہ ہیں وہ کسی مرعات یافتہ طبقے کا نظام نہیں ہے بلکہ وہ ان کا اپنا نظام ہے۔ وہ ہی اپنے وسائل کو استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے ہی منتخب نمائندے ان کے لیے قانون ساز اسمبلی میں آواز اٹھایں گے۔ اس سے ان کو اپنایت کا احساس ہوگا اور وہ اس نظام کو دل سے قبول کریں گے۔

ان انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پہلے یہاں کے عوام کو صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے فیصلہ سازی کے عمل میں محدود شرکت کا حق حاصل تھا، لیکن اب ان کو مرکزی اور صوبائی کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی نمائندگی حاصل ہوسکے گی۔

اس سال اکتوبر میں متوقع مقامی حکومتوں کی تشکیل کے بعد سات سو یونین کونسلوں سے تقریبا21000 عوامی نمائندے منتخب ہو کر آیں گے۔ اس سے یقینا علاقے کے عوام کی مشکلات مزید کم ہوں گی کیونکہ وہ ایک فورم کی جگہ اب تین سطح کے مختلف فورمز پ رمختلف قسم کے مسائل کے لیے اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کی تشکیلات کے بعد علاقے کے لوگوں اور خصوصی طور پر نوجوانوں کے لے یہ میدان سیاسی نرسریاں ثابت ہوں گی جہاں سے مستقبل کے سیاستدان ابھر کر سامنے آیں گے۔

یہ سیاسی عمل نئے اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لیے یقینا ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سیاسی عمل میں شرکت کرنے سے نہ صرف یہاں کے عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوگا، سیاسی کلچر کو فروغ ملے گا بلکہ دہشت گردی کے شکار ان جنگ زدہ علاقوں میں جمہوری رویے پروان چڑھیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ