وزیرستان میں زمینی تنازعات پر جنگیں علاقائی امن کے لیے خطرہ

یہ تنازعات صرف مخالف قبیلوں کے درمیان لڑائی تک محدود نہیں بلکہ اکثر وبیشتر ایک ہی قبیلے کے مابین بھی خونی جھگڑوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔

(اے ایف پی)

یہ تحریر سابق قبائلی اضلاع میں زمین کے معاملے پر ہونے والے تصادموں کے سلسلے کی دوسری قسط ہے۔ اس سلسلے کی پہلی قسط آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے تحصیل تیارزہ کے علاقہ خیسور میں گذشتہ ماہ 25 جولائی کو سپیرکئی وزیر اور نانو خیل محسود کے درمیان متنا زع زمین پر جھگڑے میں دو افراد مارے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

خیسور میں آباد نانو خیل محسود اور شکئی کے احمد زئی وزیر کے درمیان جنگ اس وقت شروع ہوئی جب مبینہ طورپر نانو خیل محسود نے بالاپتھر قرار دی گئی زمین پر گھر بسانے شروع کیے۔ مقامی روایات کے مطابق بالا پتھر زمین کو رہائشی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ صرف کاشت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فریقین کے مابین جنگ بندی کرانے کے لیے مقامی انتظامیہ نے دونوں اطراف سے دس رکنی نمائندہ جرگہ تشکیل دے دیا جس نے بروقت کارروائی کر کے علاقے کو ایک خون ریز جنگ سے بچا لیا۔

جنوبی وزیریستان سے جرگہ ممبر ملک حبیب اللہ خان وزیر نے اینڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر بروقت کارروائی نہ ہوتی تو خدانخواستہ اس جنگ کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے تھے۔ ضم شدہ اضلاع میں قبیلوں کے رمیان متنازع زمیں پرپچھلے چار ہفتوں کے دوران یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا۔

کانیگرم میں زمین کا تنازع

یہ تنازعات صرف مخالف قبیلوں کے درمیان لڑائی تک محدود نہیں بلکہ اکثر وبیشتر ایک ہی قبیلے کے مابین بھی خونی جھگڑوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جولائی کے اوائل میں جنوبی وزیرستان کے تحصیل کانی گرم میں زرگر قبیلے کے دو قبیلوں گل مین اورپنگ قبائل کے درمیان زمین کے تنازعے پر کم از کم دو افراد لقمہ اجل بن گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔

جنوبی وزیرستان کے کئی دیگر علاقوں میں محسود قبائل کے حریف قبائل کے خلاف اس قسم کے تنازعات معمول کا حصہ ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں محسود قبیلہ شمالی وزیرستان کے اتمانزئی وزیر جنوبی وزیرستان (وانا) کے احمد زئی وزیروں اور بھٹانی قبیلے کے خلاف زمینی تنازعات پر برسرپیکار رہا ہے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

تودہ چینہ میں امکانی تصادم

 2009 میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن راہ نجات کے نتیجے میں محسود قبیلے کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھربار چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں پناہ لینی پڑی۔ جون 2014 میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے بعد 2016 میں جب محسود قبائل اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے اور رزمک میں مقیم اتمانزئی وزیر کومتنازع زمین پر گھر بساتے دیکھا تو ان کے خلاف ہتھیار اٹھالیے اور ایک خون ریز تصادم کے بعد متنازع علاقے واگزار کرا لیے۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سنگم پر واقع تودہ چینہ وہ متنازع علاقہ ہے جس کے ایک طرف مکین کے محسود قبیلے کے چھوٹے قبیلے عبدالئی، ملکشی اور اشنگئی قبیلے آباد ہیں اور دوسری طرف رزمک کے طوری خیل وزیر۔

لیکن حال ہی میں زمین کے مسئلے سے شروع ہونے والا یہ تنازع ایک بار پھرسر اٹھانے لگا ہے۔ اب کی باردونوں متحارب فریق اس وقت ہتھیار اٹھا کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے جب طوری خیل وزیرکے کچھ لوگوں نے متنازع علاقے پر رہائشی مکان بنا لیے۔ مقامی سماجی کارکن اور قبائلی رہنما محمد قذافی محسود کے مطابق علاقے میں اس وقت حالات بہت کشیدہ ہیں اور اگر ان پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو یہ کسی بڑے خون ریز واقعے کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔

 ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اورداعش کا ممکنہ گٹھ جوڑ

رزمک پاک افغان سرحد کے قریب وادی شوال سے جا ملتا ہے۔ جون 2014 میں جب شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا تو سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں واقع شوال اور دتہ خیل کے علاقے ان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ثابت ہوئے۔

اس دوران یہ دہشت گرد ضم شدہ اضلاع میں بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم وقفے وقفے سے دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ پاکستانی طالبان کی قیادت افغانستان سے ان دہشت گرد کارروائیوں کے حوالے سے ہدایات جاری کرتی رہی ہیں۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد گو کہ طالبان کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آئی تھی لیکن ضم شدہ اضلاع میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور خصوصا ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات ایک طرف اگر علاقے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں تو دوسری طرف ہمسایہ ملک افغانستان میں داعش کی بڑھتی کارروائیاں بھی پاک افغان سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سال جولائی میں ننگرہار میں جیل پر حملہ اور اس سے پہلے مئی میں بچوں کے ایک ہسپتال اور حکومتی تنصیبات پر یکے بعد دیگرے زوردار حملے افغانستان میں داعش کی طاقت اور ہیبت کا پتہ دیتے ہیں اور مبصرین کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اورداعش کا ممکنہ گٹھ جوڑ علاقائی امن کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مختلف دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے تقریباً چھ ہزار کے قریب پاکستانی جنگجو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گر تنظیم داعش میں اب بھی ایک کثیر تعداد کا تعلق ضلع اورکزئی سے ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں کالعدم تحریک طالبان، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے درمیان اتحاد ہو گیا ہے۔

ضم شدہ اضلاع کے امن کے لیے یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

(جاری ہے)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان