قبائلی اضلاع میں تھانے کے لیے بلامعاوضہ زمین کی فراہمی

ضلع کرم کےضلعی  پولیس آفیسر محمد  قریش خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو عطیہ شدہ زمین کی دستاویزات دکھاتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 100 کے قریب عمائدین نے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے پولیس ڈیپارٹمنٹ اور ڈی پی او  کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

(سوشل میڈیا)

قبائلی اضلاع کی تاریخ میں پچھلے ہفتے پہلی مرتبہ ضلع کرم کے  قبیلے ’پاڑہ چمکنی‘ کے مشران (عمائدین) نے اپنے دور افتادہ علاقے میں دو تھانوں کے قیام کے لیےمفت زمین فراہم کی ہے اور کہا ہے کہ یہ زمین بلا معاوضہ ہے جس کے ساتھ کسی قسم کی شرائط منسلک نہیں ہیں۔

پاڑہ چمکنی کی جانب سے اٹھائےگئے اس اقدام کو  قبائلی اضلاع اور قبائلیوں کی تاریخ میں نہ صرف ایک غیر معمولی پیشرفت سمجھا جارہا ہے بلکہ انضمام کے بعد  جن علاقوں میں تھانوں کی مخالفت ہوئی تھی اس کے برعکس ایک اچھا امیج بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جس کو سنجیدہ عوامی حلقوں میں کافی سراہا جارہا ہے۔

ضلع کرم کےضلعی  پولیس آفیسر محمد  قریش خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو عطیہ شدہ زمین کی دستاویزات دکھاتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 100 کے قریب عمائدین نے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے پولیس ڈیپارٹمنٹ اور ڈی پی او  کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ وہ جب چاہیں اس زمین پر تھانوں کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں نیز مستقبل میں اس زمین پر کسی قسم کی دعویداری، رکاوٹ یا عذر و اعتراض نہیں کیا جائے گا۔

’سیواک اور سر پاخ دو مقامات پر  6 کنال اور 12 کنال کی اراضی وقف کر دی گئی ہے۔اس میں ان لوگوں کی سوائے اس حقیقت کے اور کوئی غرض نہیں تھی کہ ان کے علاقے میں امن و امان قائم ہو۔ لہذاانہوں نے زمین دینے کے بدلے کوئی شرائط نہیں رکھیں۔‘

ڈی پی او قریش خان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ضلع کرم میں پچھلے ایک سال کے عرصے سے پولیس کے نظام کے تجربے سےگزرنے کے بعد  اس ضلعے کے عوام کا پولیس پر بھروسہ بڑھ گیا ہے اور یہ جان گئے ہیں کہ جو  خوبیاں پولیس نظام میں ہیں وہ ایف سی آر(فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن) میں نہیں تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب یہ لوگ ایک ایس ایچ او کو اپنے علاقے میں گشت کرتے دیکھتے ہیں،  ان کے جان و مال کی حفاظت ہو رہی ہوتی ہے، اور جس طرح پولیس کے ساتھ یہ کھل کر اپنے مسائل پر بات کر سکتے ہیں، یہی وہ فرق ہے جس  کی وجہ سے انہوں نے پولیس نظام کو  بہتر پایا ہے۔

عمائدین علاقہ کی رائے

پاڑہ چمکنی کے دیگرعمائدین کے علاوہ حیات ملک،  پٹھان ملک، ملک تاج اور ملک اخونزادہ محمد اکرم خان نے اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علاقے کے امن و امان کے لیے یہ بہت ضروری تھا کہ پولیس سٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔

 ملک اخونزادہ محمد اکرم خان نے کہا کہ’ہم محب وطن لوگ ہیں۔ روایات کے امین اور اقدار کا پاس رکھنے والے ہیں۔ جس طرح دیگر علاقوں میں ترقی ہوئی ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا علاقہ اسی طرح ترقی کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں بھی اصلاحات کا سلسلہ شروع ہو جائے، تب ہی نظم و نسق پیدا ہو سکے گا۔ پولیس کے نظام سے موقعے پر کارروائی ہو کر کسی بھی جرم کا قلع قمع ہوگا اور عدالتی نظام آنے سے اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوگا۔‘

ملک اکرم خان نے تھانوں کے قیام کے موضوع کو آگے لے جاتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع کے انضمام کےپہلے دس سال ایک  ٹرانزیشن مدت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  اگرضم شدہ اضلاع کے لیےوفاق یا صوبے این ایف سی ایوارڈ کا تین فی صد حصہ دیں تو اصلاحات کا سلسلہ یقینی ہو جائے گا۔

پاڑہ چمکنی اور اس کے مکین:

ضلع کرم دو حصوں  اپر اور لوئر کرم پر مشتمل ہے۔جس کی سرحدیں ا یک جانب افغانستان، سپین غر کے ساتھ لگی ہوئی ہیں تو دوسری جانب وزیرستان، ہنگو ، ضلع اورکزئی اور ضلع خیبر کے ساتھ لگی ہیں۔

پاڑہ چمکنی اس ضلعے کا ایک دور افتادہ علاقہ ہے جو ضلع خیبر اور سپین غر کے پاس واقع ہے۔ مرکزی شاہراہوں اور علاقوں سے دوری کے سبب پاڑہ چمکنی تعمیر وترقی کے لحاظ سےپسماندہ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ضلع کرم کے ڈی پی او قریش خان کہتے ہیں ’ان لوگوں کو دو گھنٹے کی مسافت طے کرکے سدہ تھانے جانا پڑتا تھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اس قبیلے کے لوگ بہت پر امن اور  غربت زدہ لوگ ہیں۔ یہ لوگ مین سٹریم میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔‘

تھانوں کے لیےعطیہ کردہ زمین کس کی ہے؟

سابقہ فاٹا کی مخصوص حیثیت کی وجہ سے یہ علاقے ہمیشہ ’بندوبستی ‘علاقوں کے شمار سے باہر رہے ہیں۔  بندوبستی علاقوں کے اراضی کی تقسیم انگریزوں نے کچھ اس طرح کی تھی کہ ہر خاندان کو اپنا خسرہ نمبر ملنے سے زمینیں کنال اور مرلوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ جب کہ سابقہ فاٹا سے کسی قسم کا ریونیو جنریٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کو ایف سی آر کے ماتحت لایا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں زمین کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ مختلف قبیلوں کی مشترکہ جائیداد ہوتی ہے۔ اسی بدولت حالیہ پیش رفت میں پاڑہ چمکنی کی اراضی کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ قبیلے کے مشران کی رضامندگی سے عطیہ کی گئی ہے۔

قبائلی اضلاع کی زمینوں کی اسی حقیقت کی وجہ سے انضمام کے بعد سب سے اہم سوال یہی رہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی علاقوں کی زمینوں کا بندوبست اور تقسیم کا کیا حل نکالا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان