مودی کے لیے تین خطرناک خواتین

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو آئندہ ہفتے شروع ہونے والے عام انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونے سے کون تین مضبوط خواتین روک سکتی ہیں؟

تیز بولنے والی ممتا بینرجی مشرقی ریاست مغربی بنگال کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعلی ہیں۔تصاویر۔اے ایف پی

بڑی بہن ’دی دی‘

تیز بولنے والی ممتا بینرجی مشرقی ریاست مغربی بنگال کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعلی ہیں۔ اس ریاست کی آبادی جرمنی سے زیادہ ہے۔ یہاں مودی کی بھارتہ جنتا پارٹی کو اچھی کارکردگی دکھانی پڑے گی۔

چونسٹھ سالہ ممتا مودی کی بڑے ناقدوں میں سے ایک ہیں جو ان کے خلاف ایک اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم آپ کو ایک بات بتا سکتے ہیں کہ ہم سب بی جے پی حکومت کے قوم کو بچانے کی خاطر خلاف ہیں۔‘

ممتا بینرجی نے جن کی ترمول کانگرس پارٹی مغربی بنگال پر حکمرانی کر رہی ہے اب تک بی جے پی کو مودی کی بڑھتی ہوئی معبولیت کے باوجود زیادہ کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر ریلوے جنہیں ’دی دی‘ یا بڑی بہن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کو اپنی سادگی اور متوسط پس منظر کی وجہ سے کافی مقبولیت حاصل ہے۔

دہلی کی سیاسی تجزیہ نگار منیشا پریم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ممتا بینرجی نہایت اہم رہنما ہیں۔ وہ جہدجہد اور آخری وقت تک لڑنے والی خاتون ہیں۔‘

 ’اگر وہ ریاست میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہیں تو وہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔‘

شاعرہ، پینٹر اور مصنفہ، ممتا بینرجی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ان کے مداح ان کی آئل پینٹنگ اور نظموں پر عش عش کرتے ہیں ان کے ناقد اسے کچرا قرار دیتے ہیں۔

کم ذاتوں کی چیمپین

’دلت کوئین‘ کے طور پر جانی جانے والی 63 سال کی مایاوتی کا کم ذات دلتوں کی چیمپین کے طور پر کیرئر بہت رنگین رہا ہے۔ بیس کروڑ آبادی والے بھارت کے سب سے زیادہ آبادی والے اتر پردیش میں ان کا اثر کافی زیادہ ہے۔ یو پی کو انتخابات میں سب سے بڑا انعام قرار دیا جاتا ہے۔

ان کو بھوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کو 2014 کے انتخابات میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن انہوں نے اپنی دشمن جماعت سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔

تجزیہ کار ان کی اس شکست کی وجہ ان کی شاہانہ طرز زندگی کو قرار دیتے ہیں۔ لیک ہونے والی امریکی خفیہ کیبل کے مطابق انہوں نے ایک مرتبہ اپنا نجی طیارہ جوتے لانے کے لیے بھیجا تھا۔ ان پر اپنے مجسموں سے اٹے کنکریٹ پارکس تعمیر کرنے کا بھی الزام ہے۔

لیکن اگر ان کی جماعت اس وقت بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے، تو وہ حکومت سازی کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

اب تک وہ ’بی جے پی پر نسلی سیاست اور تقسیم کرنے والی سیاست‘ کا الزام لگا کر درست سمت میں جا رہی ہیں۔ ساتھ میں وہ روایتی حریف سماج وادی پارٹی کے اکیلیش یادیو سے بھی تعلقات بہتر رکھ رہی ہیں۔

تجزیہ نگار منیشا پریم کے مطابق ’ان کا حامیوں کا ایک کیڈر موجود ہے۔ یو پی میں کوئی سیاست ان کی بےعزتی کرکے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔ انہیں کوئی بھی ہلکہ نہیں لے سکتا ہے۔‘

اندرا گاندھی ورشن ٹو؟

نہرو-گاندھی خاندان کی سب سے نوجوان بیٹی پرینکا گاندھی کئی برسوں تک سیاست سے دور رہنے کے بعد بلآخر اس سال جنوری میں اس دشت میں کود پڑی ہیں۔ ان کے اس اقدام سے ہلچل بھی پیدا ہوئی ہے۔

وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار رہول گانھی کی چھوٹی بہن کے لیے مودی کی کور ہندو حمایت والے اتر پردیش سے بہتر جنگی میدان کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔

سینتالیس سالہ پرینکا کو اس ریاست میں کانگرس کی حمایت بحال کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے جہاں اسے 2014 کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کانگریس نے 80 پارلیمانی نشستوں میں سے صرف دو جیتی تھیں جبکہ بی جے پی نے 71 حاصل کیں۔  

انہوں نے اس چیلنج کو بظاہر قبول کیا ہے اور اپنی انتخابی مہم کا آغاز مودی کے حلقے وارانسی میں دریائے گنگا میں کشتی سے کیا۔

ان کے اس علامتی اقدام کو تجزیہ نگاروں نے نظر انداز نہیں کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنقید کا مقابلہ کر رہی تھیں جس میں اکثریتی ہندو ووٹرز کو بھلانے اور سترہ کروڑ مسلمانوں کو خوش کرنے کا الزام تھا۔

ان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ وہ انہیں ان کی دادی اندرا گاندھی کی یاد دلاتی ہیں جو بھارت کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی تھیں جنہیں 1984 میں ان کے اپنے محافظ نے ہی قتل کر دیا گیا تھا۔

    

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین