وزیرستان: سکیورٹی فورسز، شدت پسندوں میں غیراعلانیہ جنگ؟

گذشتہ تین دنوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پانچ اہم جنگجو دو مختلف کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔

(اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان چند روز سے بظاہر غیر اعلانیہ جنگ چھڑ گئی ہے۔ فریقین مسلسل ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

محسود قبائل نے ایک مظاہرے میں الزام لگایا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد جوابی کارروائی میں اہلکار عام شہریوں پر تشدد کرتے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گذشتہ تین دنوں میں پانچ اہم جنگجو دو مختلف کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔ پہلے واقع میں علاقے سروکئی میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ایک جھڑپ میں تین شدت پسند مارے گئے جبکہ شمالی وزیرستان میں دو شدت پسند ہلاک اور دو فوجی زخمی ہوئے تھے۔

جنوبی وزیرستان میں شدت پسند طالبان کی بظاہر واپسی کے بعد سکیورٹی فورسز پر حملے پہلے صرف ایک سب ڈویژن لدھا میں شروع ہوئے تھے لیکن اب وہاں سے نکل کر سروکئی سب ڈویژن میں ہونے لگے ہیں۔

پولیس کے مطابق تحصیل سروکئی کے علاقے شہور کاسکئی میں پاکسانی فوج اور دہشت گردوں کے درمیان اس وقت جھڑپ شروع ہوگئی جب چھپے ہوئے شدت پسندوں نے ایک فوجی قافلے پر فائرنگ کی اور فوج کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور مارے گئے تھے تاہم اس واقع میں سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

سکیورٹی فورسز کے ایک بیان کے مطابق فوج کی جوابی کارروائی میں کمانڈر شمس الدین، کمانڈر رحمت اللہ عرف مانگڑئی اور عادل خان ہلاک ہوگئے تھے۔ تینوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔

اس کے واقع کے ایک دن بعد ادھر شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی حیدر خیل میں ایک فوجی قافلے پر ایک حملے کے نتیجے میں دو اہلکار زخمی ہوئے تھے اور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں دو شدت پسند وسیم خان اور ذکریا مارے گئے تھے۔ سرکاری بیان کے مطابق وسیم خان سی ایس ایس انفارمیشن افسر زُبید خان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تھے جن کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اسی دن ادھر وانا میں ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی سے سکیورٹی فورسز کے ایک چیک پوسٹ پر حملہ ہوا تھا جس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تھی البتہ فائرنگ میں ملوث دو افراد کو سکیورٹی فورسز نے زندہ گرفتار کر لیا جن کو وانا سکاؤٹس کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ حکام کے مطابق کراس فائرنگ میں ایک راہ گیر بچہ زخمی ہوا تھا جو ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال وانا میں زیر علاج  ہے۔

سروکئی کے رہائشی اورنگزیب نے بتایا کہ وہ ان واقعات کے بعد بہت پریشان ہیں کہ آنے والے دنوں میں حالت مزید خراب ہوں گے یا ان چند واقعات کے بعد حالت پھر امن و امان کی طرف لوٹ آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن سے پہلے ان کے پاس اسلحہ تھا جس کو وہ اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرسکتے تھے۔ لیکن اب وہ غیر مسلح ہیں اور مکان میں صرف کلہاڑیاں موجود ہیں جس سے وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ اب وہ سوچ رہے ہیں کہ خاموش ہو کر یہاں رہ لیں یا پھر سے نقل مکانی کرکے ڈیرہ اسماعیل چلے جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نور عالم نے بتایا کہ پچھلے دنوں شکتوئی میں ایک فوجی قافلے پر بارودی سرنگ کا حملہ ہوا تھا جس میں ایک لفٹیننٹ سمیت تین اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد فوج نے گاؤں شکتوئی سے سرچ آپریشن کے دوران ایک سو سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر کے ایک سرکاری سکول کے عمارت میں پوچھ کچھ کے لیے رکھا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پوچھ کچھ کے دوران عام شہریوں پر تشدت کیا گیا۔ تاہم سرکاری طور پر لوگوں پر تشدد کی تصدیق نہیں کی گئی۔

ڈپٹی کمشنر خالد اقبال خٹک نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ عام شہریوں پر تشدد کی کوئی اطلاع نہیں اور وہ علاقے میں امن برقرار رکھنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی کا دورہ جنوبی وزیرستان امن کا پیغام ہے اور وزیرستان کے لوگوں نے دلی محبت کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔

پی ٹی ایم کے رہنما حیات پریغال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد عام شہری نشانہ بن رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں سخت خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

حیات پریغال کے مطابق حالت اتنی بگڑ گئی ہے کہ لوگوں گھروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی باہر بھاگ کر کہیں چھپ سکتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اب قبائلی علاقے تو نہیں رہے اور خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکے ہیں ’اب ہمیں بھی دوسرے اضلاع کے شہریوں کی طرح اپنے شہری سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ بھی دوسرے اضلاع کے لوگوں کی طرح رویہ رکھا جائے۔‘

شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تازہ جھڑپوں کے بعد اکرام الدین محسود کی سربراہی میں ایک جرگہ شکتوئی روانہ ہوا ہے۔ جرگے کا کہنا ہے کہ محسود قبائلی کسی بھی صورت میں شدت پسندوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں پھر سکیورٹی فورسز کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ طالبان کے حملے کے بعد عام شہریوں پر تشدد نہ کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان