پاکستان کی سیاست میں ان دنوں ایک بار پھر گرما گرمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والی اے پی سی کی تیاریاں پہلے سے زیادہ بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
اس بار دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پہلے کی نسبت زیادہ سنجیدگی سے اس میں شرکت کاارادہ رکھتی ہیں۔
جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن کی جانب سے تمام ایوانوں سے مستعفی ہونے کی تجویز برقرارہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کو اے پی سی میں ورچوئل شرکت کی دعوت دیدی ہے۔
اس کی علاوہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مریم نواز نے بھی اے پی سی میں شرکت کا عندیہ دیاہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے دعوی کیا ہے کہ اس بار تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت عوامی مسائل حل کرنے اور نظام چلانے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں اے پی سی میں کیا لائحہ عمل طے کریں گی یہ تو اعلامیہ سے ہی پتہ چلا گا لیکن اس بار اپوزیشن پارٹیوں کے ایک پیج پر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
کیا نواز شریف ورچوئل شرکت کر سکتے ہیں:
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا تو انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو زرداری نے انہیں دعوت ضرور دی ہے۔ لیکن ابھی انہوں نے شریک ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔
کیونکہ ان کی صحت کا مسئلہ بھی ہے اور عدالتوں میں کیسوں پر اثرات کا اندازہ بھی لگانا ہوگا کہ ان کی ورچوئل شرکت سے مسائل پیدا نہ ہوں ۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جو حکمت عملی بنائی جارہی ہے اس میں تمام اپوزیشن رہنماؤں کی مشاورت جاری ہے۔ لہذا 20ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی پہلے سے زیادہ موثر ہوگی۔
میاں نواز شریف کو دعوت دینے کے حوالے بلاول نے ٹویٹر پیغام بھی جاری کیاہے۔ جس پر مریم نواز کی جانب سے ان کا شکریہ بھی اداکیاگیاہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف مسلم لیگ ن کے قائد ہیں بلاول کی دعوت کو قبول کرنا یا نہ کرنا ان کا اختیار ہے۔ تاہم ہماری خواہش ہے کہ وہ اے پی سی میں اظہار خیال کریں۔ لیکن حتمی فیصلہ انہیں کا ہوگا وہ بہتر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتیں اب جمعیت علماء اسلام کی بات سے متفق ہیں کہ جعلی مینڈیٹ سے آنے والی حکومت ناکام ہوچکی ہے اس لیے اسے ہٹانا ناگزیر ہوچکاہے۔
جاوید لطیف کے مطابق اس بار اے پی سی کا اعلامیہ سن کر عوام خوش ہوں گے کیونکہ کوئی طبقہ اب اس حکومت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے دو سال اس حکومت کو دیے تاکہ یہ اپنی کارکردگی دکھا سکیں لیکن بدقسمتی سے یہ حکومت تو اپنی سمت کاہی تعین نہیں کر سکی۔
ہر معاملے میں حکومت کو بدترین ناکامی کا سامنا رہا اس لیے اب حکومت مخالف حتمی تحریک کے آغاز کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ حالات کو مدنظر رکھتےہوئے یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ ہوجائے۔
اے پی سی میں جو بھی مشترکہ فیصلہ ہوگا ن لیگ اس پر پوری طرح عمل کرے گی۔
کیا جمعیت علماء اسلام کے تحفظات برقرارہیں؟
جب یہ سوال جمعیت علماء اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد سے پوچھاگیاتو انہوں نے کہاکہ ہم نو چھوٹی جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کو تیار ہیں اور اے پی سی میں بھی یہی تجویز دیں گے۔
لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت، ن لیگ کی پارلیمنٹ اورپنجاب میں زیادہ نشستوں کے باعث وہ اس فیصلہ سے ہچکچا رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ اب بھی نواز شریف تو اپنے بیانیہ پر قائم ہیں اس بار بھی انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کر کے ڈٹے رہنے اور ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
لیکن شہباز شریف کا بیانیہ ابھی تک مختلف ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی مولانا فضل الرحمن کی تجاویز پر پوری طرح عمل کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتی ہم ان جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہاکہ اگر یہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ہماری تجاویز پر متفق ہوجائیں اور تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہوں حکومت دو دن نہیں چل سکے گی۔
حافظ حسین احمد نے کہاکہ اگر نواز شریف اے پی سی میں ورچوئل شرکت کریں گے تو اس سے ہماری بات میں زیادہ وزن ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ان ہاؤس تبدیلی نہیں بلکہ دوبارہ انتخابات کی تحریک چلانا ہوگی کیونکہ جب ہم کہتے ہیں ان اسمبلیوں میں حکومتی اراکان دھاندلی سے آئے ہیں تو انہیں اراکین کے ووٹ سے کسی دوسرے وزیر اعظم کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق جے یو آئی عوامی تحریک یا حکومت مخالف تحریک چلانے سمیت اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کو تیار ہے اور تجاویز بھی یہی دیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی سے متعلق وفاقی وزیر فواد چودھری سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی موقف نہیں دیا۔