اے پی سی: مصلحتیں آڑے آئیں گی یا کوئی حتمی فیصلہ ہو گا؟

ن لیگ اور پی پی پی سخت پالیسی اپنانے سے گریزاں ہیں لیکن ہم اسلام آباد پر چڑھائی کی تجویز دیں گے: جے یو آئی ف۔

ہم حکومت جام کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ موثر تحریک چلائی جائے، جے یو آئی ف (اے ایف پی)

پاکستان میں ان دنوں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے مقاصد کے لیےمتحرک دکھائی دے رہی ہیں۔

حکومت ایوانوں میں بجٹ منظور کرانے کے لیے کوشاں ہے تو اپوزیشن جماعتیں حکومتی ’ناکامیوں‘ پر متحد ہونے کی کوشش میں ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمن گذشتہ الیکشن میں ناکامی کے بعد سے کبھی مبینہ انتخابی دھاندلی تو کبھی ناموس رسالتؐ کو بنیاد بنا کر مختلف شہروں میں حکومت مخالف احتجاج و جلسے کررہے ہیں۔

وہ کافی جدوجہد کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی 26 جون کو باقاعدہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اے پی سی بلانے کا اعلان ایسے موقع پر ہوا جب پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری،ان کی ہمیشرہ فریال تالپور اور سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نیب کیسوں میں گرفتار ہو چکے ہیں۔

دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی مرکزی قیادت اسمبلی فلور پر حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش بھی کر چکی ہے جسے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف این آر او لینے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔

ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیادونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمن کی خواہش کے مطابق اے پی سی میں تحریک کے ذریعےحکومت کو گھر بھیجنے کا کوئی حتمی فیصلہ کریں گی یا نہیں؟

اسلام آباد پر چڑھائی کی تجویز

جمعیت علما اسلام ف کے مرکزی رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا 26جون کی اے پی سی میں ان کی جماعت دوسری اپوزیشن پارٹیوں کواسلام آباد پر چڑھائی اور دھرنے کی تجویز دے گی کیونکہ موجودہ حکومت کو مزید وقت دیا گیاتو مسائل کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت گرفتار ہونے پر دونوں جماعتیں سخت پالیسی اپنانے سے گریز کرتے ہوئے مصلحتوں کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے پہلے دن کہا تھا کہ ’بدترین دھاندلی‘ پر اسمبلیوں سے استعفی دیں لیکن اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔

غفور حیدری نے کہا ’ہماری جماعت میثاق معیشت کی تجویز کو بھی مسترد کرتی ہے، جس حکومت نے عوام کاجینا محال کر دیا اور ملکی معیشت تباہ کی ان سے تعاون نہیں نجات حاصل کی جائے‘۔

’ہمارے کارکن اور پارٹی قیادت حکومت جام کرنے کے لیے بالکل تیار ہے لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ موثر تحریک چلائی جائے۔‘

 ن لیگ اور پی پی پی کیا کہتی ہیں

تاہم، ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت دو مختلف طرز (پارلیمانی اور عوامی سطح )کی سیاست میں تقسیم نظر آتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت حکومت مخالف تحریک ضرور چلانا چاہتی ہے لیکن جمہوری انداز سے۔

انہوں نے کہا سابق صدر آصف علی زرادری نے میثاقِ معیشت کو وزیر اعظم عمران خان کے اپوزیشن سے رویے کے ساتھ مشروط کیا کیونکہ ’ہم حکومت نہیں بلکہ ملکی معیشت اور عوام کو کندھادیناچاہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا بلاول بھٹو زرداری نے نواب شاہ کے حالیہ جلسے میں حکومت کے خلاف جو موقف اپنایا، پوری پارٹی اس کے ساتھ ہے اور اسی کے مطابق اے پی سی میں بھی اپنی تجاویز دیں گے۔

انہوں نے کہا حکومت نے دونوں جماعتوں کو مزید ٹارگٹ کرنے کے لیے غیر قانونی کمیشن تشکیل دیا جو قابل قبول نہیں۔

انہوں نے بتایا پیپلز پارٹی ماضی میں قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن ختم کرانے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا اے پی سی میں کمیشن کی غیر قانونی تشکیل کو چیلنج کرنے کی تجویز بھی دیں گے۔’اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں پر ہر جماعت عمل درآمد کی پابند ہوگی۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف کی قیادت میں ان کی پارٹی اے پی سی میں بھرپور شرکت کرے گی۔

انہوں نے کہا آل پارٹیز کانفرنس میں جو تجاویز دی جائیں گی وہ پہلے نواز شریف سے منظور کرائی جائیں گی۔’اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف تحریک سمیت جن نکات پر بھی متفق ہوں گی ان پر ہم بھی پاسداری کے پابند ہوں گے۔‘

انہوں نے دعوی کیا کہ اپوزیشن چاہے تو کسی بھی وقت حکومت گرا سکتی ہے لیکن جمہوریت کو مضبوط کرنے اور پارلیمنٹ کے احترام میں اضافے کے پیش نظر ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جس سے غیر جمہوری قوتیں پارلیمنٹ کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

’آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلکہ آل پاکستان کرپشن الائنس‘

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کو آل پاکستان کرپشن الائنس قرار دیتے ہوئے کہا اپوزیشن احتساب سے خوفزدہ ہے، کرپشن مافیا کو پہلی بار دیانت دار حکومت کا سامنا ہے۔

’دو بڑی جماعتوں کے کرپٹ بڑے گرفتار ہیں باقی ان کی کرپشن بچانے کے لیے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا جب پیغامات کے ذریعے رعایت نہ ملی تو اسمبلی فلور پر دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت نے اعلانیہ این آر او مانگ لیا۔

’عوام ان کے مقصد سمجھ چکے ہیں اب چاہے اے پی سی ہو یا تحریک کی دھمکی، این آر او نہیں ملے گا۔‘

انہوں نے مشورہ دیا کہ اپوزیشن جماعتیں اے پی سی سے پہلے ’اپنے گھریلو اختلافات‘ ختم کر لیں اور طے کریں کہ قیادت کرنی کس نے ہے کیونکہ دونوں بڑی جماعتوں میں تو قیادت کی لڑائی چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا ’ابو بچاؤ‘ تحریک کو حکومت مخالف تحریک نہیں کہا جاسکتا۔

’اے پی سی میں فوری فیصلہ متوقع نہیں‘

سینئر صحافی نجم سیٹھی کے مطابق اپوزیشن جماعتیں 2018کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کا دعوی کرنے کے باوجود اب تک کوئی بڑا احتجاجی شو نہیں کر سکیں، جبکہ مولانا فضل الرحمن اکیلے ہی متحرک نظر آئے۔

’انہیں کے پی کے میں عوامی حمایت بھی حاصل ہے مگر پنجاب اور سندھ کی بڑی جماعتوں کی قیادت گرفتار ہونے پر ان کی طرف سے عوامی سطح پر کوئی موثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔‘

انہوں نے ایک ٹی وی شو میں کہاکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت رواں سال نومبر میں ختم ہورہی ہے اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی زیر بحث ہے، پاکستانی سیاست میں کیونکہ عسکری قیادت کی تبدیلی یا مدت ملازمت میں توسیع کے گہرے اثرات ہوتے ہیں اس لیے اپوزیشن جماعتیں مشاورت میں چند ماہ مزید گزارنا چاہتی ہیں اس لیے اے پی سی میں فوری طور پر حکومت کے خلاف حتمی اور انتہائی اقدام کا اعلان ہوتا نظر نہیں آرہا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست