خواتین کو مخصوص نشستوں پر لانے کے لیے طریقہ کار کیوں نہیں؟

پاکستان میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو دوہرے مسائل کا سامنا ہے، جس کا کھل کر اظہار وہ شاذونادر ہی کرتی ہیں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342 نشستوں پر صرف آٹھ خواتین انتخابات میں براہ راست حصہ لے کر آئی ہیں (قومی اسمبلی/اے ایف پی)

پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342 نشستوں پر صرف آٹھ خواتین انتخابات میں براہ راست حصہ لے کر آئی ہیں، جب کہ قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے 60 مخصوص نشستیں ہیں جن پر آنے والی خواتین جنرل سیٹس پر آنے والی خواتین کے برعکس نہ صرف عوام الناس بلکہ اسمبلی کے اندر بھی اکثر تنقید کی زد میں رہتی ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو سیاست میں قدم رکھنے کے لیے کئی قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے لیکن پاکستان میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو دوہرے مسائل کا سامنا ہے، جس کا کھل کر اظہار وہ شاذونادر ہی کرتی ہیں تاہم  آف دی ریکارڈ بات چیت میں وہ اکثر اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذکر کرتے سنی جاسکتی ہیں۔

عوام کی جانب سے مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین  کو انتخابات میں براہ راست حصہ نہ لینے کی وجہ سے تنقید وتضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ اسمبلیوں میں بھی انہیں ’سیٹ پلیٹ میں ملنے‘ جیسے طعنوں سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں سیاست میں خواتین کو مخصوص نشستوں پر نمائندگی ملنےکے حوالے سے جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اس میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب کوئی خبر خود سیاسی ایوانوں سے اڑ کر عوام کے کانوں تک پہنچتی ہے۔

حال ہی میں دو ن لیگی کارکنوں پر الزامات لگنے کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے مخصوص نشستوں پر براجمان خواتین کی حیثیت کو بھی اچھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی پس منظر میں اگر یہ کہا جائے کہ جس مقصد کی خاطر مخصوص نشستوں کا نظام متعارف کیا گیا اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں تو حقائق مایوس کن نظر آتے ہیں۔

چند دن قبل کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن کو عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن نے فلور پر سب کے سامنے ان کی سیاسی حیثیت کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ‘’ان کامپیٹینٹ’ اور دیگر منفی الفاظ سے یاد کیا۔

 پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رکن نے اس حقیقت کی تائید کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کچھ دن پہلے ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا جس کے مطابق فلور پر سب کے سامنے تحریک انصاف کے ایک رکن نے ان کے ساتھ گالم گلوچ کی۔

انہوں نے بتایا کہ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک سماجی مسئلے پر بات کرنا چاہ رہی تھیں اور انہیں بات نہیں کرنے دیا جارہا تھا۔ خاتون رکن نے کہا کہ ایسے ماحول میں اسمبلی میں بیٹھی دیگر خواتین سہم جاتی ہیں اور فلور پر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔

منفی رویے اور پراپیگنڈے کی وجہ اور تدارک کیسے ہو؟

پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے 60 مخصوص نشستیں ہیں۔یہ نظام پاکستان میں پہلی بار سنہ 2000 میں پرویز مشرف دور حکومت میں متعارف کروایا گیا، جس میں ضلعئی، بلدیاتی اور یونین کونسل کی سطح پر خواتین کے لیے 33 فیصد کوٹہ متعارف کروایا گیا۔

تاہم شروع سے لے کر اب تک، بلواسطہ انتخابات کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے اندر خواتین کو مخصوص نشستوں پر لانے کے لیے ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے جس میں اقربا پروری، نیپوٹزم اور سیاستدانوں کی ذاتی پسند نا پسند کی حوصلہ شکنی ہو، تاکہ اس مائنڈ سیٹ کو بدلا جا سکے جس کے مطابق جو خواتین انتخاب لڑ کر نہیں آتیں ان میں قابلیت نہیں ہوتی یا پھر انہیں نشست کسی کے احسان سے ملی ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتیں اگرچہ یہ کہتی رہتی ہیں کہ مخصوص نشستوں پر خواتین کو لانے کے لیے ان کا نظام  بہت شفاف ہے لیکن درحقیقت اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلائل نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا حکومت کے موجودہ ترجمان کامران بنگش سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت میں مخصوص نشستوں کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت میں جو خواتین ریزروڈ سیٹس پر آئی ہیں ان سب کے پاس پارٹی رکنیت تھی، اور یہ بھی کہ انہوں نے پارٹی کے لیے بہت کام کیا تھا، جس کے بعد وہ میرٹ پر سیلیکٹ کی گئیں تھیں۔

 اس دلیل کو چیلنج کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار کاشف احمد خان نے کہا کہ اگر مخصوص نشست پر  آنے کے لیے پارٹی کی رکنیت اور متعلقہ سیاسی جماعت کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ہی معیار ہے تو کسی بھی خاتون کو سیلیکٹ کرنے یا مسترد کرنے کا کرائیٹیریا کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا: ’اگر کسی سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ میرٹ پر خواتین کو لایا جاتا ہے تو میرٹ کا وہ طریقہ کار بتا دیا جائے۔ یہ بھی بتا دیا جائے کہ اگر ایک پارٹی کے لیے 100 خواتین نے رکنیت حاصل کی ہو اور سب نے ایکٹیولی پارٹی کے لیے کام کیا ہو، اور ان سب کی محنت متعلقہ پارٹی مانتی بھی ہو، تو ایسے میں کس کو کیسے اور کس بنیاد پر سیلیکٹ کیا جائے گا؟‘

کاشف خان نے مزید کہا کہ ’حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کوئی طریقہ کار ہے نہیں ماسوائے اپنی ذاتی ترجیحات کے۔‘

انہوں نے کہا: ’مخصوص نشستیں جس مقصد کے لیے بنائی گئی تھیں اس کے تحت سیاسی پارٹیاں اس نظام کے ذریعےخواتین کی فلاح وبہبود اور معاشرتی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتی تھیں، تاہم جان بوجھ کر اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے تاکہ خواتین کی شمولیت برائے نام ہی رہے۔‘

پاکستان میں الیکشن ایکٹ 2017 خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو پابند بناتی ہے کہ عام انتخابات میں وفاقی اور صوبائی اسمبلی میں کم از کم پانچ فیصد خواتین امیدوار مقابلہ کر  رہی ہوں۔تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بہت سی سیاسی جماعتیں اس قانون کی یا تو سرے سے پیروی ہی نہیں کرتیں اور یا پھر ایسے حلقوں کے لیے ٹکٹ دیتی ہیں جہاں سے جماعت کے جیتنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا۔

عوامی نیشنل پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک نے اس بحث کو آگے لے جاتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں خواتین کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ مالی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’اس پدرسرانہ معاشرے میں اگر سیاسی جماعت کسی خاتون کو ٹکٹ بھی دے پھر بھی خواتین مہم نہیں چلا سکتیں، جلسے جلوس نہیں کر سکتیں۔ ایسے میں مخصوص نشستوں پر بھی اگر خواتین نہ آئیں تو ان کی نمائندگی کیسے ہوگی۔ جہاں تک عوام کی جانب سے مخصوص نشستوں پر آئی خواتین کو طعنے دینے اور ان کی کردارکشی کی بات ہے تو یہ ایک مائنڈسیٹ ہے جو آہستہ آہستہ تعلیم اور شعور کے ساتھ ٹھیک ہوگا۔‘

خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا ہےکہ اسمبلی کے اندر اور باہر ایک جیسا مائنڈ سیٹ ہے جس کا کسی صوبے یا سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ یہ مائنڈسیٹ خواتین کو مردوں سے کمزور اور کم تر سمجھنے کے باعث ان کی قابلیت، اہلیت اور محنت کو نظر انداز کرتا ہے اور انہیں زیر کرنے کے لیے  سب سے آسان ہتھیار کسی خاتون کی کردار کشی کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی بےباک اور دلیرانہ بات کرنے کے لیے مشہور ہیں، اور فلور پر اکثر ان کی مردوں کے ساتھ لڑائی چلتی رہتی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خواتین کو صرف خواتین ہونے کا طعنہ ہی نہیں دیا جاتا بلکہ ان کو مخصوص نشست پر آنے کا بھی طعنہ دیا جاتا ہے۔

’یہ خواتین کا بھی قصور ہے کہ وہ ان مردوں پر پردہ ڈالتی ہیں۔اگر یہ اپنے حق کے لیے بات نہیں کریں گی تو کسی اور کے حق کے لیے کیا بات کریں گی۔یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اقربا پروری کی بنیاد پر آئی ہیں، اور انہیں سیاست کا الف ب نہیں معلوم نہ ہی وہ سیاست میں دلچسپی لیتی ہیں۔ ایسی خواتین کی وجہ سے سنجیدہ سیاستدان خواتین کا نام بھی خراب ہوتا ہے۔‘

نگہت اورکزئی نے تجویز دی کہ الیکشن میں براہ راست حصہ لینے سے ہی سیاست میں خواتین کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تدارک ممکن ہے۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاستدان معراج ہمایون جو خود بھی قومی وطن پارٹی کی مخصوص نشست پر ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مخصوص نشست پر آنے کے لیے چونکہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے لہذا یہ سیٹ ایک  طرح سے اس خاتون پر اس پارٹی کا احسان ہی رہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ خاتون اپنی پارٹی کے سامنے کچھ بولنے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ حالانکہ زیادہ تر خواتین کو پارٹی دوبارہ آنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔

اسمبلی میں سوال نہ اٹھانے اور قانون سازی میں مؤثر کردار ادا نہ کرنےکی وجہ بھی مرد ہوتے ہیں اور پھر یہی مرد کہتے ہیں کہ ہماری سیٹ ضائع ہو گئی یہ خواتین تو کسی کام کی نہیں ہیں۔‘

معراج ہمایون نے کہا کہ اگر خواتین اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے خواتین کو خود بڑھ کر الیکشن میں حصہ لینا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا: ’اب وقت آگیا ہے کہ خواتین براہ راست انتخابات  میں حصہ لیں، چاہے آپ کو 12 ووٹ ہی کیوں نہ ملیں۔ اس سے آپ کی شناخت ہوگی اور لوگوں کو سیاست میں آپ کی سنجیدگی کا اندازہ ہوگا۔‘

سیاسی تجزیہ کار کاشف احمد خان نے خواتین ارکان اسمبلی کے برعکس مخصوص نشستوں کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے اور میرٹ پر خواتین لانے کے لیے حل پیش کرتے ہوئے کہا: ’مخصوص نشستوں کے لیے حلقہ بندیاں کروا کر خواتین کے مابین انتخابی مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔ یا پھرایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ مختلف  شعبوں کے لیے اسی شعبے میں ماہر خواتین کی درخواستیں  لے کر ان میں میرٹ کی بنیاد پر ایک غیر جانبدار پینل کے ذریعے شارٹ لسٹنگ کی جائے۔ یا ٹیسٹ لیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر اس نظام کو مزید شفاف بنانا ہو تو ٹسٹ رزلٹس یا انٹرویوز کی ریکارڈنگ کرکے اس کو پبلک کیا جائے۔

’اور بھی کئی طریقے ہو سکتے ہیں اس نظام کو شفاف اور مؤثر  بنانے کے لیے۔ اس کی وجہ سے مخصوص نشستوں پرسیاسی جماعتوں  میں شامل ہونے والی خواتین کی ہراسانی نہیں ہوگی، وہ دباؤ میں نہیں آئیں گی۔ عوام کی جانب سے کسی کو  ان کی ذات پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوگی۔ اس طرح وہ عوام اور خواتین کی فلاح کے لیے بغیر کسی دباؤ کے کام کر سکیں گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین