ترسیلات زر میں اضافہ واقعی پاکستان کی معیشت کے لیے خوش خبری؟

وزیر اعظم عمران خان کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات میں اضافہ خوش خبری ہے تاہم ماہرین معاشیات کے خیال میں یہ ملکی معیشت میں بہتری کے باعث نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے کچھ دوسرے عوامل کار فرما ہیں۔ 

اس سال جون اور جولائی ایسے مہینے تھے جب کافی عرصے بعد پاکستان کی غیر ملکی ترسیلات نے دو ارب ڈالرز کا ہندسہ عبور کیا تھا۔  اس موقع پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا تھا۔ (اے ایف پی فائل)

ماہرین معاشیات گذشتہ چار ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجی جانے والی رقوم میں اضافے کو عارضی قرار دیتے ہوئے آئندہ چند ماہ میں غیر ملکی ترسیلات میں کمی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔   

ان ماہرین کے خیال میں غیرملکی ترسیلات میں اضافہ ملکی معیشت میں بہتری کے باعث نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے چند دوسرے عوامل کار فرما ہیں۔ 

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں معاشیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد خان کا کہنا تھا: ’یہ عوامل آئندہ چند مہینوں میں نہیں رہیں گے اور عین ممکن ہے کہ بیرون ملک سے کارکنان کی ترسیلات زر (ورکرز ریمیٹنسز) کی مد میں موصول ہونے والی رقوم بھی کم ہونا شروع ہو جائیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر ملکی ترسیلات زر میں اضافہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں لاگو لاک ڈاؤن میں نرمی یا خاتمے کا نتیجہ ہے۔ 

ان کے بقول: ’باہر سے موصول ہونے والی ترسیلات میں اضافے کا بالکل بھی مطلب نہیں ہے کہ پاکستانی معیشت میں کوئی بہتری آ رہی ہے۔ معیشت میں بہتری کے اشاریے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔‘

وزیر اعظم عمران خان نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں پاکستانی قوم کو خوش خبری سنائی کہ ستمبر میں ملک کو موصول ہونے والی غیر ملکی ترسیلات زر 2.3 ارب امریکی ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں جو اگست کی نسبت نو فیصد اضافہ ہے۔   

 

اس سال جون اور جولائی ایسے مہینے تھے جب کافی عرصے بعد پاکستان کی غیر ملکی ترسیلات نے دو ارب ڈالرز کا ہندسہ عبور کیا تھا۔ اس موقع پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا تھا۔ 

اگست 2020 میں باہر سے آنے والی رقوم میں تقریباً پانچ کروڑ امریکی ڈالز کی کمی آئی تھی۔ 

غیر ملکی ترسیلات زر وہ رقومات ہیں جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں کام کرنے والی پاکستانی اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے وطن بھیجتے ہیں۔  

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں روزگار کرتی ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بڑی تعداد متحدہ امارات (یو اے ای) میں ہے جبکہ دوسرے کئی عرب ملکوں میں بھی پاکستانی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ 

عرب ممالک کے علاوہ پاکستانی باشندے یورپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے مختلف ملکوں میں بھی روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں۔ 

غیر ملکی ترسیلات کا اتار چڑھاو 

دسمبر 2019 میں شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا نے آئندہ چند مہینوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے باعث ہر ملک میں کاروباری اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ 

اس معاشی بدحالی سے دنیا کے مختلف ممالک میں روزگار کرنے والے پاکستانی کارکن بھی متاثر ہوئے، دسیوں ہزاروں کی نوکریاں چھوٹ گئیں اور ایک بڑی تعداد وطن واپس آگئی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کویڈ19 کی وبا کے باعث دنیا بھر میں بینک بند تھے اور مارچ 2020 کے بعد سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے گھروں کو پیسے نہیں بھیج پا رہے تھے۔  

ان کا کہنا تھا: ’یہی وجہ ہے کہ مارچ سے مئی تک کے عرصے کے دوران غیر ملکی ترسیلات زر میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔‘

پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد خان نے کہا کہ جون میں ساری دنیا میں یا تو لاک ڈاونز اٹھائے گئے  یا ان کی سختی میں کمی کی گئی ہے۔ بینکوں  اور دوسرے مالیاتی اداروں نے بھی کام شروع کر دیا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے جون میں بیرون ملک سے آنے والی کارکنان کی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔  

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترسیلات زر میں اس اضافے کی وجہ یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ وہاں لوگوں نے زیادہ کمانا شروع کر دیا ہے بلکہ وبا کی وجہ سے نوکریوں سے محروم ہونے والے پاکستانی اب وہاں سے اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ 

پروفیسر اشفاق حسن خان نے کہا کہ خصوصاً عرب ممالک جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور اسی حساب سے وہاں پاکستانی بےروزگار بھی ہوئے ہیں۔  

ان کا کہنا تھا کہ بے روزگار ہونے والے پاکستانیوں کی جانب سے پیسے بھیجنے کا یہ سلسلہ مزید چند ایک مہینے جاری رہ سکتا ہے۔  

’اس کے بعد غیر ملکی ترسیلات زر نیچے جانا شروع ہو جائیں گی اور ان میں کافی کمی آنے کا امکان ہے۔‘

اس سلسلے میں انہوں نے چند ماہ قبل پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ اضافہ صرف اس لیے ہوا تھا کہ کاروباری سرگرمیاں کھلتے ہی لاک ڈاونز کے دوران ملنے والے  آرڈرز جو پورے نہیں ہو پائے تھے پر یک دم سے عمل ہوا۔ 

ان کے مطابق: ’جونہی آرڈرز کا بیک لاگ ختم ہوا تو برآمدات کے اعداد و شمار نیچے آ گئے۔‘

ذیشان حیدر نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی وبا اور اس کے اثرات کے باعث غیر یقینی کا بھی شکار ہیں جس کے باعث اکثر لوگ اپنی جمع پونجی وہاں سے نکال کر وطن واپس بھیج رہے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ تین چار مہینوں سے بے روزگار رہنے کے باعث اکثر کارکن اپنے رشتہ داروں کو پیسے نہیں بھیج  پائے تھے۔ ’اب جب بینک وغیرہ کھلے ہیں تو ان میں سے اکثر نے گھروں کو زیادہ پیسے ارسال کیے ہیں جس کے باعث ترسیلات میں اضافہ واقع ہوا۔‘

ذیشان حیدر کے خیال میں غیر قانونی طریقوں سے پیسوں کی ترسیلات پر پابندی کی وجہ سے بھی لوگ بینکوں اور قانونی طریقوں سے رقوم بھیجنے کا انتظام کرتے ہیں جس کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ 

’ساری دنیا میں ہنڈی اور حوالے کے کاروباروں پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے جس کے باعث قانونی طریقوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پیسے بھیجنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ایک مہینوں میں پاکستان کو موصول ہونے والی غیر ملکی ترسیلات زر میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وجوہات بڑی واضح ہیں کہ وہاں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور ان معیشتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ ان سب بے روزگاروں کو نوکریاں دے سکیں، اس لیے یہ لوگ واپس آئیں گے اور یوں بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات بھی نیچے کا سفر شروع کر دیں گی۔ 

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ غیر ملکی ترسیلات زر میں اضافہ قطعاً معیشت کی مضبوطی یا بہتری کی نشانی نہیں ہوا کرتے ہیں۔  

انہوں نے کہا کہ افراط زر کی کمی، روزگار کا مہیا ہونا، نجی شعبے کا سرمایہ کاری میں دلچسپی لینا، ملک میں برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی وہ عوامل ہیں جو معیشت کی مضبوطی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان