ملکی معیشت کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے خاصی بدحال ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے ایسے میں عید الا ضحیٰ کے موقعے پر ہونے والی قربانی سے معاشی سرگرمیوں میں کتنی تیزی آ سکتی ہے؟
اس حوالے سے جب ہم گذشتہ سالوں کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عید الاضحیٰ پر 200 سے 300 ارب روپے تک کی رقم ہر سال شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ قربانی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عارضی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جانوروں کو منڈیوں اور گھروں میں پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے استعمال سے لے کر انہیں چارے کی فراہمی اور قصابوں تک، لاکھوں لوگ اس معاشی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملکی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 18.5 فیصد ہے، جس میں سے 60.5 فیصد حصہ لائیو سٹاک کا بنتا ہے۔ 38.5 لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ گذشتہ مالی سال میں لائیو سٹاک کی مجموعی مالیت 1384 ارب روپے تھی، جو 2018-19 میں بڑھ کر 1440 ارب روپے ہو گئی۔
ملکی برآمدات میں لائیو سٹاک کا حصہ 3.1 فیصد ہے جبکہ اس سے دیہی علاقوں میں 80 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ زیادہ تر وہ علاقے ہیں جو پسماندہ ہیں اور جہاں مویشیوں کو پالنے کے علاوہ روزگار کی دیگر سہولتیں کم ہیں۔ ان علاقوں میں بھکر، بہاولپور، ڈیری غازی خان، نوابشاہ، میر پور خاص اور سبی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
عیدِ قرباں پر بیرون ممالک سے آنے والی ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر پاکستانی اپنی قربانی کی رقومات پاکستان بھیجتے ہیں تاکہ قربانی کا فائدہ ملک کے پسماندہ طبقات کو ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ یہ رقوم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے علاوہ ان خیراتی اداروں کو بھی دیتے ہیں جو پاکستان کے ضرورت مندوں تک قربانی کا گوشت پہنچانے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے ترجمان شعیب احمد ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان بھر میں دو ہزار بڑے اور ڈیڑھ ہزار چھوٹے جانوروں کی قربانی کریں گے۔ اس کے لیے عطیات پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اور خیراتی ادارے انہیں مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ غریب لوگوں کو عید کے موقعے پر گوشت مہیا کر سکیں۔ الخدمت کی طرح مسلم ہینڈز بھی پاکستان بھر میں گذشتہ 27 سال سے قربانیاں کر رہی ہے۔
مسلم ہینڈز کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیا النور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلم ہینڈز اس سال پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 1800 جانوروں کی قربانی دے گی، جس سے62 ہزار غریب خاندان مستفید ہوں گے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک اور ترکی کے خیراتی ادارے بھی ہیں جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر قربانیاں کرتے ہیں جس کا فائدہ پاکستانی معیشت کو ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان ٹنر ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ افضال حسین نے بتایا کہ پاکستان سالانہ 80 کروڑ ڈالرز کی چمڑے کی مصنوعات برآمد کرتا ہے، جن کے لیے سب سے اہم ذریعہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں ہوتی ہیں۔ 'ہماری مصنوعات میں استعمال ہونے والے چمڑے کی کل ضروریات کا تقریباً 40 فیصد قربانی کے تین دنوں میں پورا ہو جاتا ہے لیکن اس سال چونکہ کرونا کی وجہ سے کافی مندی ہے اس لیے دیکھتے ہیں کہ لوگ کتنی قربانی کرتے ہیں۔‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے بتایا کہ معیشت پر قربانی کا دور رس نہیں بلکہ وقتی اثر ہوتا ہے، جو جانور بیچتے ہیں ان کی جیبوں میں پیسہ جاتا ہے لیکن اگر مجموعی معیشت کی بات کریں تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
کرونا کی وجہ سے معیشت پر جو منفی اثرات پڑے ہیں ان کی وجہ سے پاکستان میں غربت کی شرح 24.3 فیصد سے بڑھ کر 33.5 فیصد ہونے کی پیش گوئی ہے۔ ان حالات میں یقیناً قربانی پر بھی اثر پڑے گا جو گذشتہ سالوں کی نسبت کم ہو سکتی ہے۔
تاہم اس کے باوجود قوتِ خرید کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور یہاں 2017 میں صارفین کی قوتِ خرید ایک کھرب 60 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔ جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نامساعد معاشی حالات کے باوجود لوگ قربانی کے لیے سرمایہ خرچ کریں گے جس کا اثر ملکی معیشت پر پڑے گا اور لاکھوں عارضی روزگار پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے کسانوں تک رقوم پہنچیں گی، جس سے لائیوسٹاک مارکیٹ ترقی کرے گی۔