'لوگ سودا نہیں کرنے دیتے': مویشی منڈی کی واحد خاتون بیوپاری کا شکوہ

21 سالہ عائشہ غنی روزانہ موٹر سائیکل پر اپنے گھر سے سپر ہائی وے پر لگی مویشی منڈی آتی ہیں، جہاں انہوں نے قربانی کے جانوروں کا سٹال لگایا ہوا ہے۔

کراچی کی عائشہ غنی عمر میں تو صرف 21 سال کی ہیں لیکن کام بڑے بڑے کرتی ہیں۔

انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے آرٹس کے شعبے میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے جم انسٹرکٹر ہیں اور لڑکیوں کو موٹر سائیکل چلانا بھی سکھاتی ہیں۔ ان کے الٹے ہاتھ کی کہنی پر لگی بڑی چوٹ کا نشان اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں بائیک چلانے کا بے حد شوق ہے۔

عائشہ روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر گلشن اقبال میں اپنے گھر سے سپر ہائی وے پر لگی مویشی منڈی آتی ہیں، جہاں انہوں نے عید الاضحیٰ سے قبل قربانی کے جانوروں کا سٹال لگایا ہوا ہے۔ ان کے سٹال پر کل 36 جانور تھے، جن میں سے کچھ فروخت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سٹال پچھلے 12 سال سے گھر پر کام کرنے والی اپنی ملازمہ کے بیٹے کے ساتھ اشتراک میں لگایا ہے۔

عائشہ نے بتایا کہ 'کراچی میں ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں تھی، اس لیے ہم نے پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں اپنی ملازمہ کے گھر پر کچھ جانور خرید کے رکھوا دیے تھے جہاں ان کی دیکھ بھال ہوتی رہتی تھی اور اب ہم انہیں یہاں بیچنے آئے ہیں۔'

ان کے سٹال پر سب سے مہنگا جانور پانچ لاکھ 30 ہزار جبکہ سستا ایک لاکھ 20 ہزار کا ہے۔ ان تمام جانوروں میں سے ایک گائے 'شیرو' ان کی سب سے پسندیدہ ہے، اس کی قیمت پانچ لاکھ روپے ہے۔ عائشہ نے بتایا: 'میں نے شیرو کو بڑے نازوں سے پالا ہے۔ وہ چاول، بسکٹ، روٹی سب کچھ کھاتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جو بھی اسے خریدے اس کے نخرے ضرور اٹھائے۔'

 

لڑکی ہونے کے باعث عائشہ کو منڈی میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 'اکثر لوگ میرا یہاں آنا پسند نہیں کرتے، خاص طور پر جس طرح میں بائیک چلا کر آتی ہوں، وہ تو سب سے زیادہ ناپسند کیا جاتا ہے۔'

عائشہ کو اس بات کی پریشانی تو ہے کہ مویشی منڈی میں جانور فروخت کرتے کرتے ان کی جلد کا رنگ خراب ہوگیا ہے لیکن اس سے زیادہ بڑی پریشانی انہیں یہ ہے کہ جب وہ کسی جانور کا سودا کرتی ہیں تو انہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے بات نہیں کرنے دی جاتی بلکہ کنارے پر کردیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'میں جب بھی کسی جانور کا سودا کرتی ہوں تو 10 لوگ بیچ میں آجاتے ہیں۔ وہ مجھے بات کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی سودا کرنے دیتے ہیں۔'

مویشی منڈی میں واحد خاتون بیوپاری ہونے کے باعث انہیں مردوں کی چبھتی نظروں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 'لوگ عجیب نظروں سے مجھے گھورتے ہیں، بعض اوقات جب میں منڈی میں جانوروں کا سودا کرتی ہوں تو میرے سٹال کے ارد گرد صرف مجھے دیکھنے کے لیے ہجوم جمع ہوجاتا ہے۔ لوگوں کی نظریں عجیب لگتی ہیں، ہمیں انہیں باقاعدہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں۔'

مگر ان تمام مشکلات کے باوجود عائشہ نے پچلے 10 سے 12 دن سپر ہائی وے کی مویشی منڈی میں گزارے ہیں اور وہ عید قرباں تک روزانہ وہاں جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وہ آج بھی بائیک پر منڈی آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ 'مجھے لوگوں کی نظروں کی اس قدر عادت ہوگئی ہے کہ اب کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ میں بس اپنے کام پر توجہ دیتی ہوں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا