عید میلاد النبی کے جلوسوں کی ابتدا مسلم سکھ فساد سے ہوئی

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں عید میلاد النبی کے جلوسوں کی ابتدا راولپنڈی سے ہوئی اور اس کی وجہ مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان ہونے والا بلوہ تھا۔

جامع مسجد راولپنڈی، جہاں سے یہ فسادات شروع ہوئے تھے،1898  میں اس مسجد کا سنگ بنیاد جس جگہ رکھا گیا اس کے قریب سکھوں کا گوردوارہ تھا اس لیے سکھ نہیں چاہتے تھے کہ یہاں مسجد بنے۔ (سجاد اظہر)

اس سے پہلے کہ آپ یہ جان سکیں کہ عید میلاد النبی کے موقعے پر جلوسوں کی روایت کیسے شروع ہوئی؟ ہم آپ کو راولپنڈی میں 1926 کے فسادات کے متعلق بتائیں گے کیونکہ اس سوال کا جواب تاریخ کے اسی باب میں ہے۔

راولپنڈی کے فسادات کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ ہماری تاریخ کی کتابوں میں اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ اس ایک واقعے نے آنے والے سالوں کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

13 جون 1926 کو شام سات بجے شہر میں فسادات شروع ہوئے جنہوں نے اگلے روز آدھے شہرکو راکھ بنا کر رکھ دیا۔ وجہِ تنازع ایک سینما (لکشمی) بنتا ہے جو مسجد کے قریب بنایا گیا تھا۔ اگلے روز شہر کو گورکھوں اور گورے فوجیوں کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1896 میں جب راولپنڈی شہر کے وسط میں ایک بڑی جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانے لگا تو اس وقت مسلمانوں اور سکھوں میں مسجد کی تعمیر پر کشیدگی پیدا ہو گئی۔ باغ ِ سرداراں کا علاقہ جہاں سکھ اکثریت میں تھے یہاں ایک بڑا گوردوارہ بھی موجود تھا اس لیے سکھ نہیں چاہتے تھے کے ا س کے قریب مسلمان اپنی مسجد بنائیں۔ اس تنازعے کو گولڑہ شریف کے پیر مہر علی شاہ نے گفت و شنید سے حل کروا دیا۔

18 کنال پر مشتمل اس مسجد کی تعمیر 1903 میں مکمل ہوئی جس کے لیے اس وقت کے افغان بادشاہ کے بیٹے امان اللہ خان کا تعاون بھی حاصل رہا۔ یہی امان اللہ بعد ازاں افغانستان کے صدر بنے۔

مسجد بن گئی اور بظاہر مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان کشیدگی کی فضا ختم ہو گئی۔ حسب ِ روایت سکھوں کے سالانہ تہواروں کے جلوس جامع مسجد روڈ سے گزرتے تو پھول برسانے اور رستے میں سبیلیں لگانے میں مسلمان بھی پیش پیش ہوتے۔

لیکن پھر 1920 کے عشرے میں مسجد سے ملحق زمین پر سینما بن گیا جس کے ساتھ دکانیں بھی تھیں۔ اس سینما کی زمین سردار موہن سنگھ کی تھی جو اس وقت راولپنڈی کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ بظاہر سینما اور مسجد کے درمیان ایک اونچی دیوار تھی لیکن مسلمانوں اور مسجد کے امام کا موقف تھا کہ سینما گرایا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت میں کیس چلا۔ مسلمان کیس ہار گئے، جس پر چلتے چلتے حالات اس نہج پر پہنچ گئے فساد پھوٹ پڑا جس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ راجہ نریندر ناتھ اور گوپال چند نارنگ جو کہ ہندو سبھا لاہور کی طرف سے 16 جون کو راولپنڈی پہنچے تھے، انہوں نے فسادات پر اپنی انکوائری رپورٹ میں لکھا کہ فساد کی فوری وجہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ بنا کہ مسجد کے ساتھ موسیقی نہ بجائی جائے۔ چونکہ یہ بنگال میں قانون بن گیا تھا اس لیے یہاں بھی مسلمانوں کا مطالبہ تھا۔

اس دوران سکھوں کے پانچویں گرو ارجن سنگھ کے دن کے مناسبت سے 13 جون 1926 کو جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس ہر سال جامع مسجد کے باہر سے ساز بجاتے ہوئے گزرتا تھا اور مسلمان بھی شرکا کی آؤ بھگت کرتے تھے مگر ایک تو سینیما کا ایشو اور دوسرا موسیقی کا مسئلہ ایسا تھا جس پر مسجد کے امام اور باہر سے آنے والے علما حضرات مقامی آبادی کو اکسا رہے تھے۔

اس بات سے سکھ باخبر تھے اس لیے اس سال جلوس کے لیے سکھوں میں غیر معمولی جذبہ تھا۔

عموماً اس جلوس میں دو سے تین ہزار لوگ شریک ہوتے تھے مگر اس بار ان کی تعداد 15 ہزار تک پہنچ گئی۔ اکالی دل کے مسلح نوجوان بھی جلوس کے ساتھ چل رہے تھے۔ جلوس ابھی مسجد سے کچھ فاصلے پر ہی تھا کہ کچھ مسلمانوں نے مسجد کے سامنے ساز بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

جب ایسا نہیں ہوا تو مسجد کے باہر کھڑے کچھ نوجوانوں نے جلوس پر سنگ باری کر دی۔ حالانکہ اس سے پہلے جب یہ جلوس مسجد کے پا س سے گزرتا تو مسلمان پھول برساتے اور گرو گرنتھ کے ساتھ پھل رکھتے تھے اور شرکا کی تواضع مٹھائیوں اور مشروبات سے کرتے مگر اس سال ماحول یک لخت بدل گیا۔

مسلمانوں نے جب جلوس کے ساتھ ہسپتال کی گاڑی دیکھی تو وہ اور زیادہ سیخ پا ہو گئے کہ سکھ شاید حملے کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔ لیکن بعد میں جب ڈپٹی کمشنر مسٹر فرگوسن کے سامنے رپورٹ پیش ہوئی اس میں بتایا گیا کہ یہ گاڑی کسی نے نیلامی میں ہسپتال سے خریدی تھی اور درحقیقت اس میں چینی کی دو بوریاں، برف کا ایک بلاک اور شربت بنانے کا سامان تھا۔ شرکا کی تعداد اس سال اس لیے زیادہ تھی کہ یہ اتوار یعنی چھٹی کا دن تھا۔

اس سانحے پر پولیس پر بھی یہ الزام لگا کہ اسے کشیدگی کا علم تھا مگر اس نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ ڈپٹی کمشنر کے سامنے پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ مسجد کے نیچے ایک ہندو تاجر کی دوکان سے مسلمانوں نے ایک دن پہلے ساڑھے تین سو روپے کی کلہاڑیاں خریدی تھیں۔ تاہم پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ آرمز ایکٹ کے تحت کلہاڑی اسلحہ میں شمار نہیں ہوتی۔

13 جون کی رات کو ہونے والے اس واقعے کے بعد 14 جون کو حالات مزید سنگین ہو گئے۔ مسلمان لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر شہر بھر میں پھیل گئے جن میں شہر کے نواح سے بڑی تعداد میں آنے والے دیہاتی بھی شریک تھے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ مسلح مسلمانوں کی بڑی تعداد گوردوارے کے باہر اکٹھی ہونی شروع ہو گئی جہاں سکھوں کا اجتماع جاری تھا۔ مسلمانوں نے اللہ و اکبر کے نعرے لگائے تو سکھ گوردوارے سے باہر آ گئے۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی ہوئی، فریقین ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔

مسلمانوں نے گنج منڈی، جو ہول سیل کی بڑی مارکیٹ تھی، وہاں 172 دکانوں کو آگ لگا دی۔ یہاں زیادہ تر دوکانیں ہندو تاجروں کی تھیں اور نقصان کا تخمینہ تین کروڑ کا تھا۔

پولیس نے ہندوؤں کو آگے جانے سے روکے رکھا جس پر انہوں نے پولیس پر جانبداری کا الزام لگایا، تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ اگر وہ لوگوں کو آگ کے اندر جانے دیتے تو جانی نقصان زیادہ ہو سکتا تھا۔

14 جون کو ہونے والے فساد میں مرنے والوں میں 11 مسلمان، دو سکھ اور ایک ہندو شامل تھا جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ زیادہ تر مسلمان آتش زدگی پر ہونے والی مزاحمت میں مارے گئے۔ دمدمہ صاحب کو جب آگ لگائی گئی تو وہاں ٹکا سنگھ بیدی نے فائر کھول دیا جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔

تاہم انتظامیہ کا موقف یہی رہا کہ سکھوں نے مسلمانوں کو اکسایا اگر اکالی دل کے مسلح نوجوان جلسے میں شامل نہ ہوتے تو فساد نہ ہوتا۔ دوسری طرف سکھوں کا کہنا تھا کہ اگر ان کی فساد پیدا کرنے کی نیت ہوتی تو وہ جلسے میں 15 سو سے زیادہ عورتیں اور بچے کیوں لے کر آتے؟

خیال یہی کیا جاتا ہے کہ چونکہ راولپنڈی کے دیہات میں 80 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لیے انتظامیہ اس مسئلے کو دبانا چاہتی تھی کیونکہ اگر فساد پھیل جاتا تو دیہی علاقوں میں ہندو اور سکھ اقلیت کو سخت خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

جب 1926 میں سکھوں کی جلوس پر فساد ہوا تو اس کا حل انگریز افسروں نے یہ نکالا کہ انہوں نے مسلمان اکابرین کو پیش کش کی کہ وہ بھی اس کے مقابلے پر اپنا کوئی مذہبی جلوس نکال لیا کریں۔ مسلمانوں نے اس تجویز کو معقول خیال کرتے ہوئے قبول کر لیا۔

اگلے برس عید میلاد النبی کے موقعے پر زبردست جوش و خروش سے جلوس نکالا گیا۔ اس کے بارے میں عزیز ملک نے اپنی کتاب ’راول دیس‘ کے صفحہ 124 تا 125 میں لکھا ہے کہ ’یہ جلوس اس شان سے نکلا کہ دشمنان اسلام کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اس سے پہلے عید میلاد کے موقعے پر صرف نذر نیاز اور میلاد شریف کی محفلوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ عوام الناس میں یہ دن ’بارہ وفات‘ کے نام سے مشہور تھا، رفتہ رفتہ اس دن کو منانے کے لیے وسیع اجتماعات ہونے لگے جن مین سیرت النبی سے زیادہ سیاسی اور ملکی مسائل بیان کیے جاتے۔ یہ صورت ایک مدت تک قائم رہی۔ پھر اس دن کی تقریبات میں ایک جلوس کا اضافہ ہو گیا۔ یہ 1927 کی بات ہے۔ اس عظیم الشان جلوس کی ابتدا ایک تاریخی حادثہ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس حادثے نے سیاست وقت کی گود میں آنکھیں کھولیں اور حالات نے اسے پروان چڑھایا۔ جلوس کی ابتدا یوں ہوئی کہ پنڈی شہر میں ہندو سکھ اور مسلمان تین بڑی قومیں آباد تھیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کی دفاتر میں عمل داری تھی اور منڈیوں پر بھی وہی قابض تھے۔ ان کی معاشی بالادستی مسلمانوں پر حکمرانی کر رہی تھی۔

’ان کی عبادت گاہوں سے گھڑیال اور گھنٹوں کی صدائیں، ناقوس کے نالے، گھنگھروؤں کے چھناکے اور طبلوں کی دھمک ابھرتی اور فضا میں دور دور تک پھیل جایا کرتی۔ سازوں کے آہنگ پر پوتر دیوداسیاں گیت گاتیں اور ان گیتوں پر عبادت کا کیف انگڑائی لیتا۔ راگ رنگ کی یہ کیفیت محض مندروں اور گوردواروں کی چار دیواری تک محدود نہ تھی بلکہ سال میں کئی کئی بار نگر کیرتن ہوتے جن میں گلی گلی راگی بھجن گاتے پھرتے۔ شہر کی فرقہ وارانہ تلخی کا موجب ہندو سکھوں کے یہی کیرتن تھے۔ جامع مسجد کے سامنے سے گانے بجاتے نکلنا مسلمانوں کے صبر و سکون کو للکارنے کے مترادف سمجھا گیا۔ رفتہ رفتہ تلخیوں کی ننھی سی آبجو ایک روز بحر بیکراں بن گئی اور باہمی نفرت کی خلیج اتنی وسیع ہوئی کہ جون 1926 کی ایک قیامت بدوش رات شہر میں قتل و غارت اور آتش زنی کی مہیب وارداتوں کو اپنے جلو میں لے کر آ گئی۔ اگرچہ یہ محض ایک رات کا کھیل تھا۔ رات کو دن بنانے والی روشنی تو نور کے تڑکے بجھ گئی لیکن نفرت کی سرد نہ ہونے والی آنچ اپنے پیچھے چھوڑ گئی۔ اس المیہ کے بعد جس میں مسلمانوں کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

’ضلع کے اعلیٰ فرنگی حکام نے میزان کے دونوں پلڑوں کو ہم وزن کرنے کے لیے شہر کے مقتدر مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ نگر گیرتن کے مقابل کوئی جلوس مقرر کریں۔ یہ تجویز معقول تھی اور وقت کا تقاضا بھی کچھ ایسا ہی تھا چنانچہ اگلے برس عید میلاد کا جلوس نکلا اور اس شان سے نکلا کہ دشمنوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔

’ابتدا میں بعض حلقوں سے اس جلوس کے خلاف صدائیں بھی بلند ہوئیں۔ مولانا ظفر علی خان نے زمیندار میں اداریہ لکھا کہ یہ ’سراسر بدعت ہے اور مذہب کی روح کو لہو لعب میں بدلنے کی شعوری کوشش ہے۔‘

اس کے جواب میں عقیدے والے مسلمان کہتے کہ ’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘ جب نیت میں میلاد النبی ؐ کی تقریب سعید پر اظہار ِ مسرت مقصود ہے تو لہو لعب کیسے ہوا اور نعت خوانی بدعت کیوں ہونے لگی؟ خود آنحضرت نے مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت سے اپنی مدح سنی تھی۔ تاریخ دان طبقہ ہجرت کے موقع پر قبا سے مدینہ روانگی کا حوالہ دیتا۔ جب انصار مدینہ سرکار دو عالم کو جھرمٹ میں لے کر چلے تھے۔ یہ جلوس نہ تھا تو کیا تھا۔ بہر کیف جلوس نکلتا رہا اور اب تک نکلتا ہے۔ ہوتے ہوتے ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں میلاد کے جلوس نکلنے لگے۔ لیکن پنڈی کو یہ فخر ہمیشہ رہے گا کہ اس جلوس کی ابتدا اسی شہر سے ہوئی تھی۔‘
محمد عارف راجہ اپنی کتاب ’تاریخ راولپنڈی و تحریک پاکستان‘ کے صفحہ 41 پر لکھتے ہیں کہ ’راولپنڈی کے فسادات سے پہلے برصغیر میں میلاد کے جلوس نہیں نکلتے تھے۔ جب ڈپٹی کمشنر نے جامع مسجد کے فسادات پر کشیدگی کم کرنے کے لیے ہندو، سکھ اور مسلمان رہنماؤں کا اجلاس بلایا تو وہاں فیصلہ ہوا کہ جس طرح ہندو سکھ اپنے اپنے تہواروں کو منانے کی غرض سے مسجد کے سامنے سے گزرتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی جلوس نکالیں اور ہندؤوں اور سکھوں کے مندروں اور گوردواروں کے سامنے سے گزریں۔‘

اسی فیصلے کے بعد 1927 کی 12 ربیع الاوّل کو عید میلاد کا پہلا جلوس راولپنڈی میں نکالا گیا جس میں پورے پنجاب سے دس لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد یہ روایت پورے برصغیر میں شروع ہو گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ