سکول کی لڑائی میں ’وردی‘ کہاں سے آئی؟

سوشل میڈیا پر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک نجی سکول میں پیش آنے والے واقعے کا چرچا ہے، جہاں دو بچوں کی لڑائی میں ایک فوجی افسر کود پڑے۔

سوشل میڈیا پر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک نجی سکول میں پیش آنے والے واقعے کا چرچا ہے، جہاں دو بچوں کی لڑائی میں ایک فوجی افسر کود پڑے اور انہوں نے اپنے بیٹے کو تنگ کرنے والے دوسرے بچے کو تھپڑ دے مارا۔ فائل تصویر

گذشتہ ہفتے سے سوشل میڈیا پر ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) کے ایک نجی سکول میں پیش آنے والے واقعے کا چرچا ہے، جہاں دو بچوں کی لڑائی میں ایک فوجی افسر کود پڑے اور انہوں نے اپنے بیٹے کو تنگ کرنے والے دوسرے بچے کو مبینہ طور پر تھپڑ دے مارا، جس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل ہوگئی۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تیسری جماعت کے طالب علم حسان عاطف کی تصویر میں اس کے چہرے پر زخموں کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں، جبکہ ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ اُس نے اپنے ہم جماعت کو کاٹا تھا، اس لیے اس کے والد نے اسے تھپڑ مارا۔

ان میں سے ایک بچے کے والد فوج میں میجر کے عہدے پر تعینات ہیں، اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر یہ بحث جاری ہے کہ دو بچوں کی لڑائی میں ایک والد اور وہ بھی فوجی افسر کیوں کود پڑے اور انہوں نے وردی میں سکول آکر اپنے بیٹے کے ہم جماعت کو تھپڑ کیوں مارا؟

لوگوں کی جانب سے پاک فوج سے میجر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر عسکری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر معاملات سامنے آنے کے بعد میجر کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے دوران تحقیقات کی جائیں گی اور نتائج آنے پر اس کے مطابق ایکشن لیا جائے گا۔‘

دوسری جانب سکول انتظامیہ نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

رابطہ کرنے پر سکول پرنسپل شہلا رحمت نے صرف اتنا کہا: ’یہ صرف بچوں کی لڑائی تھی، میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔‘ 

’ہمارے بچے کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ فوجی کا بیٹا ہے‘ 

تاہم میجر کی اہلیہ کا موقف ہے کہ ان کے شوہر نے کسی کو تھپڑ نہیں مارا۔

انہوں نے بتایا: ’نو اپریل کو ہونے والی لڑائی میں ایک بچے نے ان کے بیٹے کو مارا اور فوج کو گالیاں دیں، جس پر جواب میں دوسرے بچے نے بھی اسے تھپڑ مارا۔ اس واقعے کا علم ہونے پر ہم سکول پہنچے۔ میرے شوہر کا قصور یہ ہے کہ وہ اُس وقت یونیفارم میں تھے لیکن انہوں نے کسی کو تھپڑ نہیں مارا۔ اگر تھپڑ مارا ہے تو وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے ویڈیو کیوں نہیں بنائی؟ سی سی ٹی وی فوٹج نکلوا لیں سب سامنے آجائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’سوشل میڈیا پر یکطرفہ کہانی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ میرے بیٹے کی بھی زخمی حالت میں تصاویر موجود ہیں، جس میں اس لڑکے نے اُسے میڑک میں پڑھنے والے اپنے کزنز کے ساتھ مل کر مارا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ سکول کے پہلے ہی دن جب تعارف ہوا اور ان کے بیٹے نے بتایا کہ وہ میجر کا بیٹا ہے تو حسان نے پوری کلاس کے سامنے نازیبا باتیں کیں۔

انہوں نے کہا: ’نو ماہ سے میرا بیٹا اس سکول میں پڑھ رہا ہے اور یہ وقت ہم نے کیسے گزارہ ہے، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔‘

میجر کے اہلیہ کے مطابق انہوں نے بارہا سکول کی پرنسپل کو شکایت کی کہ سکول میں شدت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے، مقامی افراد کے بچے فوجیوں کے بچوں کو پسند نہیں کرتے، لیکن پرنسپل نے ہمیشہ یہی کہا کہ ’یہ مقامی لوگ بہت طاقتور ہیں، میں کچھ نہیں کر سکتی۔‘

بچوں کی لڑائی میں والدین کا کیا کام؟

ایک عینی شاہد عامر مغل نے بتایا کہ وہ اپنے بچے کو لینے سکول گئے تھے جس دن یہ واقعہ ہوا، تاہم جب وہ وہاں پہنچے تب تک لڑائی ہو چکی تھی۔ انہوں نے صرف میجر کو  یونیفارم میں وہاں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ تھپڑ مارنے والہ بچہ بہت شرارتی ہے اور سکول کے باقی بچوں کو بھی اکثر اس سے شکایت رہتی ہے، لیکن بچے تو ایک دوسرے سے لڑتے ہی رہتے ہیں، والدین کو درمیان میں نہیں پڑنا چاہیے۔‘

تھپڑ ماروے والے والدین ڈاکٹرز ہیں اور ڈی آئی خان کے رہنے والے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے جب ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے فون نہیں اُٹھایا جس پر انہیں تعارفی پیغام اور سوالات بذریعہ ایس ایم ایس بھیج دیے گئے۔

دوسری جانب عسکری ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ میجر کی جانب سے بچوں کی لڑائی اور سکول میں پیش آنے والے شدت پسندانہ رویے کے حوالے سے سکول انتظامیہ کو کافی خطوط لکھے گئے لیکن انتظامیہ نے اس پر بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تحقیقاتی ایجنسیاں معاملے کو تہہ تک دیکھیں گی۔‘ 

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل