افغان امن عمل ناکام ہوا تو شدید انسانی المیہ ہو گا: اقوام متحدہ

’میں افغان عوام سے تو صبر کی اپیل کر رہا ہوں لیکن 40 سال کسی بھی جنگی صورتحال کو بھگتنے کے لیے بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، دنیا کو بہرحال اب جلد سے جلد اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔‘

(اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی جانب سے پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے عمل کی ناکامی اور تشدد جاری رہنے کی صورت میں المناک انسانی المیہ جنم لے گا کیونکہ نقل مکانی کرنے والے ہزاروں افراد کرونا (کورونا) وائرس کی وبا اور سخت موسم سرما میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر فلیپوگرینڈی نے چار روزہ دورہ افغانستان کے اختتام پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ لڑائی جاری رہنے کی صورت میں مزید لوگ نقل مکانی کریں گے۔

انہوں نے کہا: 'اگر قیام امن کی یہ کوشش ناکام ہو گئی تو اس صورت میں ہم اس ملک میں یقینی طور پر ایک بڑا انسانی سانحہ دیکھ سکتے ہیں تاہم مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔'

افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور طالبان کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والے مذاکرات کے باوجود حالیہ مہینوں میں افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

گرینڈی کا کہنا تھا: 'میرا خیال ہے کہ ہمیں ہر چیز کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں مزید انسانی مسائل کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اگلے ہفتے جنیوا میں ڈونر کانفرنس سے پہلےعالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے جلدی اقدامات کریں اور نقل مکانی کرنے والوں سمیت افغانستان واپس لوٹنے والے مہاجرین کی امداد بڑھائی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ جنیوا میں یہ پیغام دیں گے کہ  ہمیں دو طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ترقیاتی عمل میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔ دوسری صورت یہ کہ لڑائی کی وجہ سے علاقے چھوڑنے والوں کو خاص طور پر مختصر مدت میں زیادہ خوراک، پانی اور پناہ کی ضرورت ہو گی۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں 742،000 افغان پناہ گزین ایران اور پاکستان سے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ اب تک ان کی ایک کثیر تعداد نوکریاں نہ ہونے اور بدامنی کی وجہ سے اپنے خاندانوں کی خاطر خواہ کفالت نہیں کر پا رہی۔ گرینڈی نے اپیل کی کہ افغان تنازعے میں شامل تمام فریق وہاں قیام امن کے لیے کوشش کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں افغان عوام سے تو صبر کی اپیل کر رہا ہوں لیکن 40 سال کسی بھی جنگی صورتحال کو بھگتنے کے لیے بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، دنیا کو بہرحال اب جلد سے جلد اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا