کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے اویغور مسلمانوں کی گرفتاری کا انکشاف

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے خلاف جاری جبر میں 'بِگ ڈیٹا' نے کردار ادا کیا ہے، جہاں مشتبہ سرگرمیوں پر کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے لوگوں کو گرفتاری کے لیے 'منتخب' کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے کیمپوں میں دس لاکھ سے زائد اویغور نسل کے افراد کو قید کیا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے خلاف جاری جبر میں 'بِگ ڈیٹا' (Big Data) نے بڑا کردار ادا کیا ہے، جہاں مشتبہ سرگرمیوں پر کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے لوگوں کو گرفتاری کے لیے 'منتخب' کیا جاتا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس واچ  (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا ہے کہ چینی پولیس کے لیک ہونے والے اعداد و شمار سےاس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سنکیانگ کے علاقے اکسو سے دو ہزار سے زائد افراد کو زیرحراست رکھنے کے لیے فہرست مرتب کی گئی۔ یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ 'چین کے علاقے سنکیانگ میں ترک مسلمانوں کو کیسے وحشیانہ جبر اور ٹیکنالوجی کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ '

قدرتی وسائل سے مالا مال اس علاقے میں ان پالیسیوں پر بیجنگ کو شدید بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے کیمپوں میں دس لاکھ سے زائد اویغور نسل کے افراد کو قید کیا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔

چین ان کیمپوں کا دفاع پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کی حیثیت سے کرتا ہے اور بیجنگ کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد شدت پسندی کو ختم کرنا اور روزگار کے مواقعوں کو بہتر بنانا ہے۔

حالیہ برسوں میں سنکیانگ میں لوگوں کی نگرانی پر کیے جانے والے اخراجات میں بڑا اضافہ ہوا ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر چہرا شناخت کرنے، آئرس سکینر اور ڈی این اے جمع کرنے سمیت مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کے مطابق اس کی حاصل کردہ فہرست میں 2016 کے وسط سے لے کر 2018 کے آخر تک کی تفصیلات کو شامل کیا گیا ہے- یہ فہرست ایک گمنام ذرائع سے حاصل کی گئی ہے جو اکسو میں کسی کیمپ کے اندر ریکارڈ کیے گئے آڈیو ویڈیو مواد پر مبنی ہے۔

اس گروپ نے 'مسز ٹی' کی ایک مثال دی جنہیں 'حساس ممالک کے ساتھ روابط' کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا تھا۔ دراصل 'مسز ٹی' کو غیر ملکی نمبر سے متعدد فون کالیں موصول ہوئی تھیں جو ان کی بہن کی جانب سے کی گئی تھیں۔

اے ایف پی کے مطابق این جی او کے ماہرین نے ان خاتون کی بہن سے بات کی تو انہیں معلوم ہوا کہ سنکیانگ میں پولیس نے ان کی بہن سے تفتیش کی ہے لیکن اس کے بعد سے اس صوبے میں موجود ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کا براہ راست رابطہ نہیں رہا۔

ایچ آر ڈبلیو کے مطابق اہلکاروں نے انہیں کیمپوں میں بھیجنے کا فیصلہ کرنے سے قبل سنکیانگ میں انٹیگریٹڈ جوائنٹ آپریشنز پلیٹ فارم کے نام سے ایک پروگرام کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی نشاندہی کی تھی، جن کی نگرانی کے لیے اس نظام سے ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا۔

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اس معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی 'بڑی تعداد' کے خلاف قانونی کام کرنے پر بھی نگرانی کی گئی جن میں بیرون ملک مقیم رشتہ داروں کو فون کال کرنا بھی شامل ہے جبکہ ایسے افراد بھی، جن کا کوئی مستقل پتہ نہیں تھا، اس دوران بار بار ان کا فون بھی بند کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس فہرست میں شامل صرف 10 فیصد افراد کو دہشت گردی یا انتہا پسندی کی وجوہات کی بنا پر زیر حراست رکھا گیا تھا۔

یہ فہرست، جس کے کچھ حصے اے ایف پی کو بھی دکھائے گئے تھے، میں متعدد لوگوں کے گرفتار کرنے کی وجہ ایک مربوط پلیٹ فارم کے ذریعے 'زیر نگرانی رہنا' بتایا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ نے یہ فہرست لیک کرنے والے افراد کی حفاظت کے پیش نظر اسے مکمل طور پر شائع نہیں کیا۔

اکسو کی مقامی حکومت کے ساتھ ساتھ سنکیانگ کے علاقائی حکام نے بھی اس بارے میں موقف دینے کی اے ایف پی کی درخواستوں پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب امریکہ میں مقیم سرویلینس ریسرچ فرم آئی پی وی ایم نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے چہرے کی شناخت کے ایسے سافٹ ویئر کی تیاری میں ملوث ہے، جو اویغور اقلیت کے چہروں کو پہچاننے پر پولیس کو الرٹ بھیج سکتا ہے۔

آئی پی وی ایم کے مطابق ہواوے کی ایک اندرونی رپورٹ، جسے اب کمپنی کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن گوگل سرچ میں یہ اب بھی دیکھی جا سکتی ہے، کے مطابق اس سافٹ ویئر کو 'اویغور الرٹس' اور 'عمر ، صنف ، نسل ،چہرے کے زاویے' پر مبنی شناخت کے لیے ٹیسٹ پاس کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ہواوے نے اس حوالے سے اپنا موقف دینے کی اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا