سری لنکا: ’یہ ایسی کہانی کی طرح تھا، جو مائیں ڈرانے کے لیے سناتی تھیں‘

اتوار کو ایسٹر کے موقع پر گرجا گھروں اور پرتعیش ہوٹلوں میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 359 تک جاپہنچی ہے۔

حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کے موقع پر ایک شخص آبدیدہ ہے۔ تصویر: اے ایف پی

مغربی سری لنکا کے علاقے نیگومبو کے سینٹ سباسچیئن چرچ  کے احاطے میں اب بھی خون کی بو پھیلی ہوئی ہے، جہاں منگل کو اُن میں سے کچھ افراد کی آخری رسومات ادا کی گئیں، جو اتوار کو ایسٹر کے موقع پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرجا گھروں اور پرتعیش ہوٹلوں میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 359 تک جاپہنچی ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

ان حملوں میں 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ابتدا میں سری لنکن حکومت کی جانب سے ان حملوں کا الزام مقامی تنظیم ’نیشنل توحید جماعت‘ پر عائد کیا جارہا تھا، جس کے حوالے سے حکومتی عہدیداران کا  کہنا تھا کہ اسے غیرملکی پشت پناہی حاصل ہے۔

منگل کی رات میڈیا سے گفتگو میں سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے کہا: ’یقینی طور پر سکیورٹی اداروں کا خیال ہے کہ ان حملوں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے اور ایسے کچھ شواہد ملے بھی ہیں۔‘

داعش  کی جانب سے حملوں کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’ہم اس دعوے کا جائزہ لے رہے ہیں، اس حوالے سے بھی شبہ تھا کہ اس میں داعش کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سری لنکن پولیس نے مزید کارروائی کرتے ہوئے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مزید 18 افراد کو بھی حراست میں لے لیا ہے، جس کے بعد مجموعی طور پر گرفتار افراد کی تعداد تقریباً 60 ہوگئی ہے۔

فرانزک ٹیمیں حملوں کے  مقامات کا جائزہ لے رہی ہیں، مرنے والوں کی تدفین کا عمل بھی جاری ہے اور دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

سینٹ سباسچیئن چرچ  کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ مرنے والوں میں سے 200 کی ہلاکت اس چرچ میں ہونے والے حملے میں ہوئی، جسے اتوار کو ہونے والے متعدد حملوں میں سے بدترین قرار دیا جارہا ہے۔

سینٹ سباسچیئن چرچ  میں کام کرنے والے 5 سالہ لکشمن پریرا، حملے کے وقت چرچ کے داخلی دروازے کے قریب کھڑے تھے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بمبار کو دیکھا تھا، جس کی عمر 27 سے 29 برس کے درمیان ہوگی اور اس نے پشت پر سیاہ رنگ کا بڑا سا بیگ پہن رکھا تھا۔

پریرا کے مطابق: ’جب وہ چرچ میں داخل ہوا تو اس نے ایک بچے کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی، ایک بچے کا ہاتھ پکڑا اور انتہائی پرسکون انداز میں اندر داخل ہوا، لیکن جیسے ہی وہ داخلی دروازے پر پہنچا، اس کی رفتار تیز ہوگئی اور اس نے اندر کی جانب بھاگنا شروع کردیا۔ جب وہ چرچ کے وسط میں پہنچا تو میں نے اسے اپنی پشت پر موجود بیگ کو پکڑتے اور اسے کھولتے ہوئے دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا اور چھت کی ٹائلز نیچےآن گریں، جس کے بعد مجھے کچھ یاد نہ رہا۔‘

انہوں نے بتایا کہ جس وقت دھماکہ ہوا، چرچ میں 500 کے قریب افراد بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد باہر گراؤنڈز میں موجود تھے۔

پریرا کے مطابق: ’جب میری آنکھ کھلی، تو جو پہلی چیز مجھے نظر آئی وہ انسانی اعضا تھے۔‘

انہوں نے بتایا: ’خون سے بھی زیادہ ادھر ادھر لوگوں کے جسموں کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے، میں یہ مناظر دہرانے سے قاصر ہوں۔ مجھے بہت دکھ ہے اورساتھ ہی بہت زیادہ غصہ بھی۔ وہ انسان نہیں تھا جس نے یہ سب کیا، وہ انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسی کہانیوں کی طرح ہے، جو ہماری مائیں ہمیں ڈرانے کے لیے سنایا کرتی تھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا