2020 کے دوران پنجاب میں کوئی خود کش دھماکہ نہیں ہوا: سی ٹی ڈی

ادارہ انسداد دہشت گردی پنجاب کے مطابق ’پنجاب کی سرزمین ہم دہشت گردوں سے واپس لے چکے ہیں۔ ہم نے دہشت گردی اور فرقہ واریت کا خاتمہ کیا ہے جب کہ مقامی پنجابی دہشت گرد تنظیموں کو سرے سے ہی ختم کر دیا گیا ہے۔‘

(اے ایف پی)

ادارہ انسداد دہشت گردی پنجاب (CTD) نے دعوی کیا ہے کہ سال 2020 کے دوران اب تک پنجاب میں کوئی خود کش دھماکہ نہیں ہوا اور ایسا 13 برس کے بعد ہوا ہے کہ صوبے میں کہیں کوئی خود کش دھماکہ نہیں ہوا۔

سی ٹی ڈی کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتےہوئے بتایا  ’نومبرمیں لاہور میں ایک خود کش حملے کو ہم نے کامیابی سے روکا تھا اس وقت جب بمبار اپنی خود کش جیکٹ کو دھماکے سے اڑانے والا تھا۔ اس خود کش بمبار کا ہدف سی ٹی ڈی کا دفترتھا۔‘

’2008 کے بعد ایک یا دو خود کش دھماکے صوبے میں ہوتے رہے مگر اس سال ایک بھی خود کش دھماکہ نہیں ہوا۔ اس لیے یہ سال خود کش دھماکہ فری سال رہا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقع پیش نہیں آیا جبکہ 2020 میں دہشت گردی کے واقعات میں 2014 کی نسبت 10 گنا کمی آئی ہے۔

سی ٹی ڈی کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ’سی ٹی ڈی نے لشکر جھنگوی، تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور دائش سے تعلق رکھنے والے 50 انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو گرفتار کیا اور دہشت گردی کے 24 منصوبوں کو ناکام بنایا۔ نیز سی ٹی ڈی نے 95 کلو دھماکہ خیز مواد، 55 ہینڈ گرنیڈ، پانچ خود کش جیکٹیں، چار ڈیٹونیٹر اور نو کلاشنکوف رائفلیں بھی دہشت گردوں سے برآمد کیں۔‘

’صوبے بھر میں انٹیلی جنس پر مبنی 1173 آپریشن کیے گئے جن میں 157 دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمات چلائے گئے۔‘

ترجمان نے بتایا ’دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف 40 کیس درج ہوئے جن میں 65 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن پر مختلف عدالتوں میں اب مقدمات چل رہے ہیں۔ اس دوران لاکھوں روپے کی نقدی بھی برآمد ہوئی اور کروڑوں روپے کےاثاثے بھی حکومت نے اپنے قبضے میں لیے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’آئی ای ڈی یا بم دھماکوں کے صرف چار واقعات راولپنڈی میں ہوئے ان دھماکوں میں ملوث تین ملزمان کو سی ٹی ڈی نے دسمبر کے مہینے میں گرفتار کر لیا تھا۔‘

سی ٹی ڈی نے ادارے کی کارکردگی پر ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے جس کے مطابق ’سال 2020 میں صوبہ پنجاب میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ایک بھی واقع رپورٹ نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیزمواد پوسٹ کرنے والے 155 ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر 12 ہزار قابل اعتراض سائٹس کو ڈھونڈ کر ان کی شکایت پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو کی گئی جن میں سے نو ہزار کو پی ٹی اے نے بلاک کیا۔ اس کے علاوہ 300 سی ڈیز، دو سو جریدے اور 15 ممنوعہ کتابیں جو نفرت پھیلانے کا سبب بن رہے تھے سی ٹی ڈی نے انہیں اپنے قبضے میں لیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی ٹی ڈٰ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس وقت 78 ممنوعہ تنظیمیں ایسی ہیں جن کی مانیٹرنگ سی ٹی ڈی کر رہا ہے اور ان تنظیموں کو کسی بھی قسم کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا ’پنجاب کی سرزمین ہم دہشت گردوں سے واپس لے چکے ہیں۔ پنجاب سے ہم نے دہشت گردی اور فرقہ واریت کا خاتمہ کیا ہے جبکہ مقامی پنجابی دہشت گرد تنظیموں کو سرے سے ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ افغانستان سے آںے والے دہشت گردوں کے مقامی سہولت کاروں کو بھی پکڑاگیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مقامی سطح پر دہشت گردوں کی معاونت کے لیے سہولت کار موجود نہیں رہے۔‘

سی ٹی ڈی کی سال 2020 کی کارکردگی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے سکیورٹی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد جاوید سے بات کی کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے سی ٹی ڈی کی کارکردگی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ جنرل ریٹائرڈ امجد جاوید کے خیال میں سی ٹی ڈی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار مستند ہیں یا نہیں اس بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہے۔

’ان اعدادو شمار کی تصدیق انٹیلی جنس ذرائع کر سکتے ہیں۔ البتہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ رواں برس دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سکیورٹی ادارے مختلف اوقات میں انٹیلی جنس پر مبنی کاروائیاں کرتے رہے ہیں جن میں بعض واقعات میں انہوں دہشت گردوں کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ جو کہ ایک قابل تحسین کارکردگی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان