مفتی کفایت اللہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں: پولیس

ایک طرف جمعیت علما اسلام پاکستان مفتی کفایت اللہ کے اہل خانہ کو گرفتار کیے جانے کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری جانب پولیس نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔

مفتی کفایت اللہ کا شمار جمعیت علما اسلام کے سینیئر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں (سکرین گریب)

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی پولیس کا کہنا ہے کہ جمعیت علما اسلام پاکستان کے رہنما مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری کے لیے ہفتے کی رات چھاپہ مارا گیا تھا تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے جبکہ پولیس نفری ان کو گرفتار کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔

تاہم دوسری جانب جمعیت علما اسلام کے مرکزی ترجمان اسلم غوری نے دعویٰ کیا ہے کہ مفتی کفایت اللہ کے بھائی، بیٹوں اور اہل خانہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

اسلم غوری کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور مفتی کفایت اللہ نے جو کچھ کہا اس سے زیادہ عمران خان کہتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آزادی اظہار رائے پر پابندی، بنیادی حقوق سلب کرنا، آئین پاکستان کی توہین اور اس کے ساتھ غداری ہے۔ مفتی کفایت اللہ کے اہل خانہ کی گرفتاری کس قانون کے تحت کی گئی ہے؟‘

دوسری جانب ضلع مانسہرہ کی پولیس نے مفتی کفایت اللہ کے اہل خانہ کی گرفتاری کی خبروں کی تردید کی ہے۔

تھانہ بفا کے  سربراہ محمد ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مفتی کفایت اللہ کے گھر والوں میں سے کسی کی بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے تاہم رات کو چھاپہ ضرور مارا گیا تھا مگر وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔

چھاپے کیوں مارا گیا؟ اس پر ارشد نے بتایا کہ مفتی کفایت کے خلاف لاہور میں مقدمہ درج ہے اور اسی سلسلے میں وہ پولیس کو مطلوب ہیں۔

ارشد نے بتایا کہ ’ہماری نفری ان کو گرفتار کرنے کی کوشش میں ہے۔‘

ضلع مانسہرہ کے پولیس سربراہ  محمد صادق بلوچ سے جب پوچھا گیا کہ کیا واقعی مفتی کفایت اللہ کے اہل خانہ کو پولیس نے گرفتار کیا ہے،  تو انہوں نے وٹس ایپ پر پیغام پڑھنے کے باوجود جواب نہیں دیا۔

تین دن پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں بتایا تھا کہ مفتی کفایت اللہ کے خلاف پھرپور تیاری کے ساتھ مقدمہ درج کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مفتی کفایت اللہ نے گذشتہ ہفتے 24 نیوز کو ایک  انٹرویو میں پاکستان فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ  ’چوری اگر پکڑنی ہے تو آرمی کے جنرلز کی بھی پکڑنی ہوگی۔‘

اسی انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اگر حکومت میں ہمت ہے تو پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ جنرل عاصم سلیم کو بھی پکڑا جائے اور ’ان کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے۔‘

مفتی کفایت اللہ کو اس انٹرویو کے بعد سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسی حوالے سے جیو نیوز کو بتایا تھا کہ آئین اور قانون کے تحت ہر اس شخص کے خلاف کاررائی  ہوگی جو پاکستان آرمی کے خلاف نازیبہ الفاظ استعمال کریں گے۔

مفتی کفایت اللہ کا شمار جمعیت علما اسلام کے سینیئر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔

چند ماہ قبل ان کا نام ضلع مانسہرہ کے ایک مدرسے میں بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کیس میں بھی آیا تھا اور ان پر الزام تھا کہ جنسی زیادتی کے ملزم کو انہوں نے گھر میں پناہ دی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان