'میں نے آپ کو ایک دھڑ دیا تھا، اب میں دو بچوں کو گھر لے جا رہا ہوں'

کراچی کے رہائشی اسرار احمد اور شاہین بی بی کے جڑواں بیٹوں کے دھڑ پیدائشی طور پر جڑے ہوئے تھے، جن کی کامیاب سرجری کے بعد اب انہیں الگ کردیا گیا ہے۔

صارم برنی ٹرسٹ  کے سربراہ صارم برنی نے دونوں بچوں امان اور ایان کو اٹھا رکھا ہے (تصویر: عرب نیوز)

جب 2019 کے اواخر میں متوقع والدین شاہین بی بی اور اسرار احمد الٹراساؤنڈ کے لیے کراچی کے ایک چھوٹے سے سرکاری ہسپتال میں گئے تو ایک ڈاکٹر نے سکین پر 'دو نقطوں' کی نشاندہی کی لیکن اس کے بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔

چند ماہ بعد مارچ میں شاہین بی بی نے جڑواں بچوں امان اور ایان کو جنم دیا۔ جنہیں پیدائشی طور پر ایک غیر معمولی عارضہ تھا، دونوں بچوں کے دھڑ جڑے ہوئے تھے۔ یہ صورت حال دو لاکھ 50 ہزار میں سے ایک پیدائش میں ہوتی ہے۔

اگرچہ کنجوائننگ (جڑے ہوئے دھڑ) کی کوئی معلوم وجہ نہیں ہے لیکن الٹراساؤنڈ کے ذریعے ابتدائی حمل میں اس کی تشخیص کی جاسکتی ہے، لیکن یہ جوڑا اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔

جوڑے کو بتایا گیا تھا کہ بچوں کو الگ کرنے کے لیے کی جانے والی سرجری پر لاکھوں روپے کی لاگت آئے گی۔ یہ اتنی رقم تھی جو وہ کبھی جمع کرنے کی امید نہیں رکھتے تھے۔

لیکن اس وقت دبئی میں مقیم ایک کاروباری شخصیت، صارم برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کی اپیل کے بعد ان کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔

گذشتہ مہینے کراچی کے آغا خان ہسپتال میں 50 ڈاکٹروں اور طبی عملے پر مشتمل ارکان نے آٹھ گھنٹے کام کیا تاکہ وہ دنیا کی ایک سب سے مشکل سرجری سر انجام دے کر کامیابی سے ان دونوں بھائیوں کو الگ کر سکیں۔

ٹرسٹ کے چیئرمین صارم برنی نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'یہ والدین غریب تھے اور جب ہمیں پتہ چلا کہ آغا خان ہسپتال میں ان کا علاج ممکن ہے تو ہم نے ایک ٹیلی ویژن شو میں اپیل کی اور ہماری اپیل ناصر حسین عبداللہ لوٹہ تک پہنچی۔'

لوٹہ نے اس سے قبل پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی جڑواں بہنوں کی بھی برطانیہ میں اسی طرح کی سرجری میں مدد کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کم اجرت پر ایک مِل میں مزدوری کرنے والے لڑکوں کے والد نے بتایا: 'مجھے یقین تھا کہ میرے بیٹوں کو الگ کر دیا جائے گا لیکن میں جانتا تھا کہ میرے پاس اتنی مہنگی سرجری کے لیے رقم نہیں ہو گی۔'

ہسپتال کے بیان کے مطابق دونوں لڑکوں کا دھڑ جڑا ہوا تھا، اس لیے انہیں مکمل طور پر الگ کرنے کے لیے کاٹنا ضروری تھا۔آغا خان ہسپتال کے سینیئر پیڈیاٹرک سرجن ڈاکٹر ظفر نذیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ یہ ایک غیر معمولی سرجری ہے جو ہسپتال نے دوسری بار انجام دی ہے۔

ان کا کہنا تھا: 'اس کے لیے ہم سب نے بھرپور وسائل سے بہت کوشش کی تھی جو کہ آپریشن روم کے اندر اور باہر دونوں جگہ کی گئی لیکن آپریشن کے آخر میں ان دونوں بچوں کو نئی زندگی ملنا ہمارے لیے خوشی کی بات تھی۔'

دنیا بھر میں اب تک کنجوائننگ کے 500 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ ان میں سے 150 کی سرجری کی جا چکی ہے، جن میں سے صرف 50 فیصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

بچوں کے والد کا کہنا تھا: 'آپریشن کے بعد جب ناصر حسین عبداللہ لوٹہ نے میرے بیٹوں کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ان کی تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کریں گے۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'خوشی ایک بہت چھوٹا لفظ ہے۔ جب ہسپتال نے بچوں کو میرے حوالے کیا تو میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ میں نے آپ کو ایک دھڑ دیا تھا اور اب میں دو خوبصورت بچوں کو گھر لے جا رہا ہوں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی صحت