امریکہ میں یہودی عبادت گاہ میں فائرنگ سے ایک خاتون ہلاک، تین زخمی

زیر حراست مشتبہ حملہ آور  کا دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے  اس نے ایک اور شہر میں مسجد  میں آتش زنی بھی کی تھی۔

کیلیفورنیا کے پووے شہر سوگ وار خواتین رانچو برناردو چرچ میں موجود  ہیں۔ ہفتے کو پووے میں یہودی عبادت گاہ میں فائرنگ میں ایک خاتون ہلاک اور تین افراد زخمی ہوئے تھے۔ تصویر: اے ایف پی

امریکہ کی ریاست کیلفورنیا کے شہر پووے میں ایک حملہ آور نے یہودی عبادت گاہ میں ہفتے کوعبادت کے دوران فائرنگ کر کے ایک خاتون کو ہلاک، جبکہ ربی سمیت تین لوگوں کو زخمی کردیا۔

 مقامی پولیس کے مطابق یہ ممکنہ نفرت پر مبنی حملہ یہودیوں کے تہوار ’پاس اوور‘ کے آخری دن پیش آیا جب عبادت گاہ (سئناگاگ) میں سبت کی عبادت جاری تھی۔

مشتبہ شخص فائرنگ کرنے کے بعد گاڑی میں فرار ہوگیا لیکن کچھ دیر بعد خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔

پولیس نے اس کی شناخت 19 سالہ جان ارنیسٹ کے نام سے کی ہے جو سین ڈیئگو شہر کا رہنے والا ہے۔ پو لیس کے مطابق جان ارنیسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اس سے قبل پچھلے ماہ ایک قریبی مسجد کو آگ لگائی اور وہ اس ملزم سے متاثر ہے جس نے مارچ میں نیو زی لینڈ میں دو مساجد میں فائرنگ کرکے تقریباً 50 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سین ڈیئگو کاونٹی شیریف بل گور کے کہا ہے کہ پولیس اور ایف بی آئی اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا جان ارنیسٹ 24 مارچ کو پووے سے 24 کلومیٹر دور واقع  شہر ایسکونڈیڈو میں ایک اسلامک سینٹر پر ہوئے آتش زنی حملے میں ملوث تھا یا نہیں۔ اس آگ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

بل گور نے کہا کہ یہودی عبات گاہ میں کچھ گولیوں کی فائرنگ کے بعد جان ارنیسٹ کا ہتھیار شاید خراب ہوگیا اور وہ وہاں سے فرار ہوگیا۔ شیریف کے مطابق اس سے پہلے جان ارنیسٹ کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔

پووے شہر میں کانگریگیشن شبد نامی یہودی عبادت گاہ پر یہ حملہ پیٹزبرگ شہر میں ٹری آ ف لائف سئناگاگ پر ہونے والے حملے کے ٹھیک چھ ماہ ہوا ہے جس میں حملہ آور عبادت کے دوران گھس آیا تھا اور ’سب یہودیوں کو مرنا ہے‘ چلاتے ہوئے فائرنگ کردی تھی، جس میں 11 افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے۔ اسے امریکہ میں یہودیوں پر ہونے والا سب سے جان لیوا حملہ سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ میں ہفتے کو یہودی پاس اوور کی عبادت کے دوران ہونے والا حملہ پچھلے کچھ ہفتوں سے دنیا بھر میں جاری عبادت گاہوں پر حملوں کے سلسلوں کا سب سے حالیہ واقعہ ہے۔ اس سے قبل 21 اپریل کو سری لنکا میں ایسٹر کی عبادات کےدوران خود کوش بمباروں نے کئی گرجا گھروں اور ہوٹلوں کو نشانہ بنایا جس میں 250 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے، جبکہ مارچ 15 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک حملہ آور نے دو مساجد میں جمعے کی نماز کے دوران فائرنگ کر کے 49 افراد کو ہلاک اور 40 سے زائد کو زخمی کردیا تھا۔

پووے کے میئر سٹیو وہ نے فائرنگ کو ’نفرت پر مبنی جرم‘  قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ اندازہ ان باتوں کی بنیاد پہ لگایا ہے جو حملہ آور نے سئناگاگ داخل ہوتے ہوئے کہیں۔

شیریف بل گور نے ایک اخباری کانفرنس میں صحافیوں جو بتایا: ’یقیناً اس واقع کی تحقیقات ہامیسائڈ کے طور پر کی جارہی ہیں، مگر ہم اسے ممکنہ نفرت پر مبنی جرم کے زاویے سے بھی  دیکھ رہے ہیں۔‘

اہلکاروں کے مطابق آن لائن ویب سائٹز پیسٹ بن ڈاٹ کام اور میڈیافائر ڈاٹ کام پر جان ارنیسٹ نامی ایک شخص کی پوسٹ کی گئی ایک تحریر بھی ملی ہیں جس میں مسلم دشمن اور یہودی دشمن باتیں لکھیں ہیں۔ اس مواد کے لینکز  انٹرنیٹ میسیج بورڈ 8چان پر شیئر کیے گئے ہیں۔

اس تحریر میں لکھنے والے نے ایسکونڈیڈو میں مسجد میں آتش زنی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس وقت مسجد میں موجود عبادت گزاروں نے آگ کو فوراً بجھا دیا تھا۔ مقامی میڈیا نے واقعہ کی رپورٹنگ میں کہا تھا مسجد میں داخلے کی سڑک پر ایک پیغام لکھا بھی ملا تھا جس میں نیو زی لینڈ کے حملے کا ذکر تھا۔

شیریف بل گور کے مطابق ہفتے کے حملے میں چار لوگوں کو گولیاں لگی تھیں اور انہیں پالومار میڈیکل سینٹر لے جایا گیا جہاں ایک ’بڑی عمر کی خاتوں‘ کی وفات ہوگئی۔ باقی تین زخمی جن میں دو مرد اور ایک بچی شامل ہیں ان کی حالت بہتر ہے۔ زخمی ہونے والوں میں سئناگاگ کے ربی بھی شامل ہے جنہیں ’انگلیوں پر چوٹیں آئیں۔‘

بل گور نے مزید بتایا کہ حملہ صبح ساڑھے 11 بجے سے پہلے ہوا جب مشتبہ شخص سئناگاگ میں داخل ہوا اور گولیاں چلانا شروع کردیں۔ ایک آف ڈیوٹی امریکی باڈر پٹرول اہلکار نے حملہ آور کو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور اس کی گاڑی پر فائر بھی کیا لیکن وہ بچ نکلا۔ البتہ کچھ دیر بعد اسے گرفتار کرلیا گیا جب اس نے خود لو پولیس کے حوالے کردیا۔

سین ڈیئگو پولیس چیف ڈیوڈ نیسلیٹ نے بتایا کہ حملہ آور نے خود ہائی وے پٹرول کو رپورٹ کیا کہ وہ سائناگاگ فائرنگ میں ملوث ہے اور اس وقت کہا موجود ہے۔

ڈیوڈ نیسلیٹ نے کہا: ’ایک پولیس افسر فری وے پر ہی موجود تھا اور اس نے مشتبہ شخص کو اس کی گاڑی میں دیکھ لیا۔ مشتبہ شخص نے سڑک کی سائڈ پر گاڑی روکی اور ہاتھ اوپر کرکے باہر آگیا جس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا۔‘

گاڑی کی آگے والی سیٹ سے ایک رائفل بھی برامد ہوئی جو مانا جاراہا ہے کہ حملے میں استعمال ہوئی ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں صحافیوں سے اس واقعہ پر بات کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ’نفرت پر مبنی جرم لگ رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ تفتیشی ادارے اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ