بائیڈن نے 'اوئے ٹرمپ' کیوں نہیں کہا؟

امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے حیران کر دیا۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو آرام سے جانے دیا، حالانکہ یہ وہ صدر تھے جنہوں نے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا جو ان کو اخلاقی طور پر نہیں کرنا چاہیے تھا۔

جو بائیڈن اگر چاہتے تو ٹرمپ کے خاندان کو رگید سکتے تھے(اے ایف پی)

امریکہ کے 46 ویں صدر نے پچھلے ہفتے ہمیں حیران کر دیا۔ جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو آرام سے جانے دیا۔ حالانکہ یہ وہ صدر تھا جس نے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا جو اس کو اخلاقی طور پر نہیں کرنا چاہیے تھا۔

150 سال کی امریکی روایت کو جس میں جانے والا صدر آنے والے صدر کو خوش آمدید کہتا ہے پامال کر دیا۔ ایسے سڑے پن کا مظاہرہ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوست بھی منہ چھپانے لگے۔ وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہی خود سے منعقد کی ہوئی ایک بھونڈی الوداعی تقریب میں جا پہنچا۔

اپنے خاندان کی تعریفیں کرتے رہے اور ایک تباہ حال معیشت اور کرونا (کورونا) سے اموات کے انبار کے درمیان کھڑے ہوئے ملک کو اپنی کامیابی بتاتا رہا۔ مشکل سے نئی انتظامیہ کا ذکر کیا لیکن جو بائیڈن اور نائب صدر کاملہ ہیرس کا نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اس سے پہلے وہ جو بائیڈن کو فاتر العقل، ضعیف اور ہکلا قرار دے چکے تھے۔ انتخابات میں واضح ہار کے باوجود عوام کو اکسا کر کانگریس پر حملہ کروانے والا ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسا سیاسی حریف تھا کہ جس کو جو بائیڈن خوب صلواتیں سناتا تو کسی کو اعتراض بھی نہ ہوتا۔

امریکہ کی صدارتی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ عدم مقبولیت کی پست ترین سطح پر تھا۔ اس کو ووٹ دینے والے اپنی نفرتوں کے غلام تھے۔ جن کو بنیاد بنا کر اس نے خود کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا۔ لیکن جو بائیڈن نے ٹرمپ کو کچھ نہیں کہا۔ اس نے اپنی تقریر میں ٹرمپ کی ناکامیاں اور امریکہ پر مسلط کی ہوئیں بربادیاں کہانی کے طور پر بیان نہیں کیں۔ نہ ہی اس نے بتایا کہ کس طرح اتحادیوں کے جھرمٹ میں امریکہ چار سال سے شرمندگی کا ایک ایسا طوق گلے میں ڈالے ہوئے تھا کہ جس کا وزن تمام قوم محسوس کر رہی تھی۔

نہ اس نے ٹرمپ کی بوئی نفرتوں کا تذکرہ کیا جس کے نتیجے میں امریکہ اس وقت اپنے بدترین اندرونی بحران سے گزر رہا ہے۔ امیر اور غریب میں لڑائی، کالے اور سفید فام میں لڑائی، عورتوں کے حقوق کے علم برداروں اور سخت گیر مردانگی کا پرچار کرنے والوں میں لڑائی، ماحولیات کو بچانے والے اور ماحولیات کو خراب کر کے پیسہ بنانے والوں میں لڑائی، پولیس اور عوام میں لڑائی، سی آئی اے اور وائٹ ہاؤس میں لڑائی، محکمہ دفاع اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں لڑائی، ٹرمپ کی کارستانیوں کی مثالیں درجنوں تھیں مگر جو بائیڈن نے ان کو نظر انداز کر دیا اور اندرونی اتحاد اور تمام امریکہ کا صدر بننے کا عہد کیا۔

ٹرمپ کی درجنوں پالیسیوں کو ختم کرتے ہوئے بھی اس نے ماضی کی کتابیں نہیں کھولیں۔ یہ ماتم نہیں کیا کہ معیشت کتنی تباہ حال ہے اور کرونا کیسے امریکہ کو گردن سے پکڑے ہوئے ہے۔ خاموشی سے صدارتی احکامات پر دستخط کیے اور کام کا آغاز کر دیا۔

 جو بائیڈن اگر چاہتے تو ٹرمپ کے خاندان کو رگید سکتے تھے۔ سابق صدر نے بہت سے اہم عہدوں پر اپنے گھر کے افراد تعینات کیے۔ اپنی بیٹی اور داماد سے امریکہ کی خارجہ پالیسی اور اندرونی معاملات چلواتے رہے۔ دوستوں یاروں کو خوب نوازا۔

اپنے کاروبار کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا کرتے رہے۔ ارب پتی ہونے کے باوجود ٹیکسوں میں غیر معمولی چھوٹ پر تسلی بخش جواب نہ دے پایا۔ بین الاقوامی تعلقات کو کاروباری منافع کے لیے استعمال کرنے کے الزام کی زد میں رہا۔

امریکہ دشمن پیوٹن سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے رہے اور باوجود تنقید کے روس کے ساتھ ذاتی معاملات کو ریاستی امور سے اوپر رکھا۔ آپ کسی بھی زاویے سے دیکھیں تو یہ سنجیدہ معاملات ہیں۔ خاندانی مراعات کو ریاستی وسائل کے ذریعے بڑھانا یا عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانا وہ الزامات ہیں جو تحقیقات نہ ہونے کے باوجود ہی طاقتور افراد کو زیر کر سکتے ہیں اور پھر جاتے ہوئے 72 سے زیادہ افراد کو خصوصی معافی بھی دے گیا تا کہ ان پر بعد میں مقدمات نہ بنائے جا سکیں۔

جو بائیڈن چاہتے تو پہلے دن سے ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ امور کو ہدف بنا کر تحقیقاتی اداروں کے ذریعے کارروائیوں کے آغاز کا عندیہ دے سکتے تھے یا کم از کم ٹرمپ کی اس تلخ ذاتی تاریخ کو دہرا کر ان کے منہ پر سیاہی مل سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام ہی نہیں لیا۔ انہوں نے زمانہ حال سے اپنے صدارتی دور کا آغاز کیا اور مستقبل میں امریکی عوام دوست اقدامات کے اجرا کو اپنی ترجیع بنایا۔ انہوں نے 'ائوئے ٹرمپ' نہیں کہا۔ انہوں نے دھمکی نہیں دی کہ اب وہ آ گیا ہے اور ٹرمپ اپنی خیر منائیں۔ اس نے یہ بھی یاد نہیں کیا کہ کس طرح ٹرمپ اور اس کی جماعت نے ہیلری کلنٹن کو مختلف تحقیقات میں پھنسا کر سزا دلوانے کی کوشش کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ حساب برابر کرنے کا ذکر تک نہیں کیا اور نہ کہا کہ ٹرمپ نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے ٹرمپ کو رلانے کا وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی آدھی صدی پر محیط طویل تکلیف دہ ذاتی حادثات سے بھرپور مشکل جہدوجہد کا کی قصہ خوانی کی۔

یہ باوجود اس کے کہ جو بائیڈن کی ہنگامہ خیز زندگی میں ایسے کئی موڑ ہیں جو حقیقی دلچسپی سے بھرپور ہیں۔ انہوں نے اپنی مذہب سے قربت پر پاسداری کی لوک کہانیاں بیان نہیں کیں اور نہ ہی امریکیوں کو بتایا کہ وہ بڑھاپے میں بھی شاندار جوانوں کے برابر کام کیسے کر لیتے ہیں۔

جو بائیڈن نے یہ سب کچھ نہیں کیا کیوں کہ وہ علم رکھتے تھے کہ اوئے کرنے سے ملک نہیں چلتے۔ انہیں پتہ ہے کہ انتقامی سیاست جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ماضی سے لڑنے والوں کا حال خراب اور مستقبل ڈوب جاتا ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ملک کی ضرورت کیا ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انہیں کیسے پہلے 100 دنوں میں ایک بااثر پلان لاگو کر کے نتائج حاصل کرنے ہیں۔

وہ احساس کمتری کے مارے ہوئے ایسے شخص نہیں ہیں جن کو ہر وقت تعریف کی دوائی نہ ملنے پر دورے پڑنے لگ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ سے بڑا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنا وقت ہے کہ عوام کو لچھے دار باتوں سے بیوقوف بناتے رہیں۔

جو بائیڈن کے سامنے پہاڑ سی مشکلات ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ کارکردگی کے اعتبار سے اچھے صدر ثابت نہ ہوں۔ ہو سکتا ہے بہت سے فیصلوں سے اس کی مقبولیت گرے۔ مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں اپنے عہدے کے تقدس اور ذاتی وقار کا لحاظ نہیں ہے۔ نہ ہی آپ اس پر خود پرستی کے جال میں پھنسنے کا الزام لگا سکتے ہیں۔

چار سال کے بعد امریکہ کو ایک ایسا صدر ملا ہے جو دوسروں کی بے عزتی کر کے اور اپنی تعریف سن کر خوش ہونے کی بجائے ان ترجیحات پر کام کر رہا ہے جس کے لیے عوام نے اس کو ووٹ دیے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ