بائیڈن گوانتانامو بے میں قید پاکستانی قیدی کی آخری امید

ذیابیطس اور دل کے مرض میں مبتلا 73 سالہ پاکستانی سیف اللہ پراچہ بغیر کسی الزام کے 16 سالوں سے اس حراستی مرکز میں قید ہیں۔

سیف اللہ پراچہ (اے پی)

کیوبا میں قائم امریکہ کے بدنام زمانہ گوانتانامو بے حراستی مرکز کے سب سے پرانے قیدی کو تازہ ترین جائزہ بورڈ کی سماعت میں انصاف کی امید ہے۔

ذیابیطس اور دل کے مرض میں مبتلا 73 سالہ پاکستانی سیف اللہ پراچہ بغیر کسی الزام کے 16 سالوں سے اس حراستی مرکز میں قید ہیں۔ ان کے لیے اب دو باتیں اہم ہیں جو گذشتہ سماعتوں میں میسر نہیں تھی، ایک سازگار قانونی پیش رفت اور دوسری جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کے گوانتانامو میں رکھے گئے قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لینے اور انھیں رہا کرنے کے موثر طریقہ کار کو ختم کردیا تھا جس سے قیدیوں کی رہائی کی امید بھی دم توڑ گئی تھی لیکن جو بائیڈن کے انتخابات جتنے کے بعد یہ امید پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔

پراچہ کی وکیل شیلبی سلیوان بینس نے 19 نومبر کو ہونے والی سماعت کے بعد امریکی اڈے سے فون پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا: ’میں اب زیادہ پر امید ہوں اس لیے کہ اب امریکہ میں ایک ایسی انتظامیہ آنے والی ہے جو اس جائزے کے موجودہ عمل کو نظر انداز نہیں کر سکے گی۔ میرے خیال میں افق پر امید کا ستارہ ابھی روشن ہے۔‘

گوانتانامو کسی زمانے میں عالمی غم و غصے کا سبب اور دہشت گردی کی جنگ میں ضرورت سے زیادہ امریکی ردعمل کی علامت تھا۔ لیکن صدر براک اوباما کی اسے بند کرنے کی کوششوں کے بعد یہ بڑے پیمانے پر سرخیوں سے ہٹ گیا۔ تاہم یہاں اب بھی 40 افراد قید میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس بدنام زمانہ قید خانے کی بندش پر زور دینے والے اب امید کی ایک کرن دیکھ سکتے ہیں، جنہیں توقع ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ان افراد کے لیے قانونی کارروائی کا ایک راستہ تلاش کرلے گی اور باقی ماندہ قیدیوں کو بھی رہا کر دیا جائے گا۔ اس قید خانے پر امریکہ سالانہ ساڑھے 44 کروڑ ڈالرز سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔

دوسری جانب گوانتانامو کے بارے میں بائیڈن کے قطعی ارادے غیر واضح ہیں۔ منتقلی کے عمل کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ نو منتخب صدر اس قید خانے کو بند کرنے کے حامی ہیں، اقتدار سنبھالنے سے اس منصوبے کی تفصیلات ظاہر کرنا غیر مناسب ہو گا۔

بائیڈن کی حقیقت پسندی کا وہ لوگ ضرور خیرمقدم کریں گے جنہوں نے گوانتانامو بند کرنے کے لیے مہم چلائی۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی واشنگٹن کی ڈپٹی ڈائریکٹر آندریا پرسو نے کہا: ’میرے خیال میں اگر اسے ایک بہت بڑا پریس ایشو نہیں بنایا جاتا تو اس کے بند ہونے کا زیادہ امکان ہے۔‘

یہ حراستی مرکز 2002 میں کھولا گیا جب صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 11 ستمبر، 2001 کے بعد القاعدہ اور طالبان سے روابط کے الزام میں گرفتار کیے گئے مشکوک افراد سے تفتیش اور انہیں قید کے لیے کیوبا کے جنوب مشرقی علاقے میں بحریہ کی ایک چوکی کو قید خانے میں تبدیل کر دیا تھا۔

امریکی حکام کا اصرار تھا کہ ان افراد کو ’جنگی قانون‘ کے مطابق حراست میں لیا جاسکتا ہے۔2003 میں جب پکڑ دھکڑ اپنے عروج پر تھی، اسی سال پاکستانی شہری پراچہ کو القاعدہ سے مبینہ تعلقات کی وجہ سے تھائی لینڈ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گوانتانامو میں تقریباً 50 ممالک سے لگ بھگ 700 افراد کو قید کیا گیا تھا۔ صدر بش نے اپنے دورہ اقتدار کے اختتام پر اس قید خانے کو بند کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اس وقت بھی 242 قیدی وہاں موجود تھے۔

اوباما انتظامیہ نے ان خدشات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ رہائی پانے والوں میں سے کچھ جنگجو دوبارہ لڑائی میں شامل نہ ہو سکیں تاکہ تیسرے ممالک میں یا اپنے وطن واپس جانے والے مزید کسی خطرے کا باعث نہ بنیں۔

صدر اوباما نے کچھ قیدیوں کے وفاقی عدالت میں مقدمے چلانے کا بھی منصوبہ بنایا لیکن اوباما انتظامیہ کی بندش کی کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب کانگریس نے گوانتانامو سے قیدیوں کی کسی بھی مقصد کے لیے امریکہ آمد پر پابندی عائد کردی جس میں قانونی چارہ جوئی یا طبی امداد بھی شامل تھی۔ اوباما نے 197 قیدیوں کو رہا کیا جب کہ ٹرمپ کے حلف لینے تک 41 قیدی اب بھی اس قیدخانے میں موجود تھے۔

ٹرمپ نے اپنی 2016 کی مہم میں گوانتانامو کو ’کچھ برے دوستوں‘ سے بھرنے کا عہد کیا تھا لیکن اوباما کی پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے بعد انہوں نے اس مسئلے کو بڑی حد تک نظرانداز کیا۔ ان کی انتظامیہ نے صرف ایک قیدی کی رہائی کی منظوری دی۔ اس سعودی قیدی نے ملٹری کمیشن کے سامنے اعتراف جرم کر لیا تھا۔

باقی بچ جانے والے 40 قیدیوں میں سے سات افراد کے فوجی کمیشن کے سامنے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان میں وہ پانچ افراد بھی شامل ہیں جن پر نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی اور حمایت کرنے کا الزام تھا۔ مزید برآں دو قیدی ایسے بھی ہیں جنھیں کمیشن نے سزا سنائی تھی اور تین کو 2002 کے بالی بم دھماکے کے لیے ممکنہ قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دفاع کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ آنے والی انتظامیہ فوجی کمیشن کو مزید درخواستوں پر سماعت کی اجازت دے سکتی ہے۔ کچھ وکلا نے یہ بھی مشورہ دیا کہ گوانتانامو کے زیر حراست افراد ویڈیو لنک کے ذریعے وفاقی عدالت میں اپنا جرم قبول کر سکتے ہیں اور دوسرے ممالک میں باقی ماندہ سزا کاٹ سکتے ہیں تاکہ وہ امریکہ میں داخل نہ ہو سکیں۔

وکیلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بائیڈن کانگریس کی مخالفت کر سکتے ہیں اور قیدیوں کو امریکہ بلا سکتے ہیں۔دو قیدیوں کے وکیل ویلز ڈکسن نے کہا: ’وہ (نئی امریکی انتظامیہ) یا تو ان قیدیوں کے بارے میں کچھ کریں یا وہ وہاں بغیر کسی الزام کے ہی مر جائیں گے۔‘

بقیہ زیر حراست افراد میں پانچ قیدی شامل ہیں جن کو ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل رہائی کے لیے کلیئر کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ بد نظمی سے دوچار گئے۔ وکلا چاہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ باقی قیدیوں کے مقدمات پر بھی نظرثانی کریں تاکہ انہیں یا تو سزا سنائی جا سکے یا انہیں جرم ثابت نہ ہونے پر رہا کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ برسوں کے دوران گوانتانامو میں نو قیدی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے سات نے بظاہر خود کشی کی، ایک کینسر سے اور ایک دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوا۔

پراچہ کی وکیل نے قید خانے میں صحت سے متعلق امور پر سوال اٹھائے ہیں۔انہوں نے ایک اہم قانونی قانونی نکتہ بھی اٹھایا، جس کے مطابق پراچہ امریکہ میں رہائش پذیر تھے اور ان کی نیو یارک سٹی میں رہائشی جائیداد بھی تھے۔ وہ پاکستان کے ایک مالدار تاجر تھے۔ دوسری جانب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پراچہ القاعدہ کے ایک ’سہولت کار‘ تھے جنہوں نے 11 ستمبر میں ملوث دو افراد سے مالی لین دین کیا تھا۔

پراچہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ مالی لین دین کرنے والوں کا تعلق القاعدہ سے تھا اور وہ دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

ان کے بیٹے عزیر پراچہ کو 2005 میں نیویارک کی وفاقی عدالت میں دہشت گردی میں مدد فراہم کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر انہی گواہوں اور شواہد کی بِنا پر سزا سنائی گئی تھی جن کا سامنا گوانتانامو بے میں موجود ان کے والد کر رہے تھے۔ لیکن مارچ میں  ایک جج نے ان شواہد کو ماننے سے انکار کر دیا اور حکومت نے نیا مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تو عزیر پراچہ کو رہا کر کے پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔

اگر ان کے والد کو امریکہ میں سزا سنائی جاتی تو شاید وہ بھی رہا ہو چکے ہوتے لیکن اس کی بجائے یہ ممکنہ طور پر بائیڈن کے ہاتھ میں ہوگا۔ جیسا کہ سلیوان بینس نے کہا: ’وقت اس کا نچوڑ ہے اور یہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا