جو بائیڈن کی سب سے بڑی محافظ، خاتون اول جل بائیڈن

کبھی اپنے شوہر اور ناراض مظاہرین کے درمیان ڈھال بن کر کھڑے ہونا تو کبھی کرونا وبا کے دنوں میں اوروں سے فاصلے پر رکھنا، خاتون اول بننے والی جل بائیڈن اپنے شوہر جو کے ساتھ چار دہائیوں سے کھڑی رہی ہیں۔  

جو بائیڈن نے بدھ کو صدر کا حلف اٹھایا اور ان کے ان کی اہلیہ جل خاتون اول بن گئیں (اے ایف پی)

وہ ان مظاہرین سے الجھ پڑیں جنہوں نے ان کے شوہر پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی۔ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران وہ اپنے شوہر کو صحافیوں سے فاصلے پر لے گئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے صدارتی عزائم کی بار بار تائید کی ہے، سوائے 2004 کے، جب انہوں نے جو بائیڈن کو الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے ایک نئی میسجنگ تکنیک کا استعمال کیا۔

بکنی میں ملبوس جل بائیڈن نے اپنے پیٹ پر مارکر سے’نہیں‘ لکھ کر اس حکمت عملی طے کرنے کے ایک سیشن میں چلی گئیں جس میں مشیر ان کے شوہر کو ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کے خلاف انتخاب لڑنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جو بائیڈن سے اپنی 43 سالہ شادی کے دوران وہ سینیٹ سے لے کر صدارتی انتخابی مہم اور پھر وائٹ ہاؤس میں براک اوباما کے نائب صدر کے عہدے تک اپنے شوہر کے ساتھ  ایک محافط کی طرح کھڑی رہیں۔ وہ بیک وقت ایک بیوی، ماں، دادی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے ساتھ معلمہ اور ایک مشہور مزاح نگار بھی ہیں۔

اب امریکہ کے 46 ویں صدر بننے والے اپنے شوہر کے ساتھ، جل بائیڈن خاتون اول بننے والی ہیں اور اپنی شناخت کے ساتھ اس پوزیشن پر براجمان ہوں گی جسے روایتی طور پر ایک مثالی امریکی خاتون کے نمونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے چاہے وہ روایت کو برقرار رکھنے والی ہوں یا سماجی خدمت کی جانب توجہ مرکوز کرتی ہوں، جیسے ایلینور روزویلٹ، ہلیری کلنٹن اور مشیل اوباما۔

جل بائیڈن کالج پروفیسر کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس طرح وہ ملازمت جاری رکھنے والی واحد خاتون اول ہوں گی۔ اور اگر عوام کی نگاہ میں چار دہائیاں کوئی اشارہ ہیں تو وہ بائیڈن کی سب سے بڑی محافظ رہنا جاری رکھیں گی۔

یہ کردار جل بائیڈن کے لیے مکمل طور پر ناواقفیت پر مبنی نہیں ہے۔ جو بائیڈن کے ساتھ ان کی شادی کی ساری مدت وہ ایک سیاسی بیوی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اوباما کی دور صدارت کے دوران خاتون اول کے کردار پر بھی گہری نگاہ رکھتی رہی ہیں۔

لیکن اب سکروٹنی کی شدت تبدیل ہو جائے گی اور سب کی نظریں بائیڈن کی آنے والی انتظامیہ پر ہیں اور ان وعدوں پر جو جو بائیڈن اور جل دونوں نےکیے تھے کہ وہ ملک بھر میں ہاتھ سے نکلتی کرونا وبا پر قابو پائیں گے۔

رائڈر یونیورسٹی کی پروفیسر اور خواتین اول کے بارے میں متعدد کتابوں کی مصنفہ مائرہ گوٹن سابق خاتون اول باربرا بش سے ایک گفتگو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ باربرا نے ایک بار ان سے کہا: ’آپ کو معلوم ہے، جب میں خاتون دوم تھی، میں کچھ بھی کہہ سکتی تھی جو بھی میں چاہتی تھی اور کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا تھا لیکن جس وقت ہی میں خاتون اول بنی تو مجھ سے جڑی ہر بات خبر تھی۔‘

لیکن پھر بھی جل بائیڈن کو سیکھنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ گوٹن کہتی ہیں: ’وہ ایک لمبے عرصے سے عوام کی نظروں کے سامنے ہیں۔ وہ اس راستے پر کھلی آنکھوں کے ساتھ چلیں گی۔‘

اب تک کرونا وائرس چار لاکھ کے قریب امریکیوں کی جان لے چکا ہے، اور روز مرہ کی زندگی بھی اس سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ بائیڈنز نے اپنے آپ کو اس نقصان اور غم کے وقت کے دوران تسلی کے محرکین کے طور پر پیش کیا، کیونکہ وہ بھی اپنی زندگی میں پیاروں کو کھونے کے غم سے گزر چکے ہیں۔ سال 2015 میں ان کے بیٹے بو بائیڈن کا دماغی کینسر سے انتقال ہوا تھا۔

جل شروع سے ہی بائیڈن فیملی کے لیے سکون کی وجہ رہی ہیں۔

جو بائیڈن کی پہلی بیوی اور چھوٹی بیٹی سال 1972 میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں تھیں۔ جل بائڈن نے 1981 میں اپنی بیٹی ایشلی کو جنم دینے سے پہلے جو کے بچ جانے والے بیٹوں، بو اور ہنٹر، کی پرورش میں مدد کی۔ وہ ان سب کا ذکر اپنے بچوں کی حیثیت سے کرتی ہیں۔

جب سینیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے جو بائیڈن ڈیلاوئر سے واشنگٹن کا سفر کرتے تھے، جل بائیڈن ایک ٹیچر کی حیثیت سے اپنا کیریئر بنا رہی تھیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر سے دو ماسٹرز ڈگریاں حاصل کی اور پھر سال 2007 میں ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی۔

اس سب کے دوران جل بائیڈن میں محافظ کی جھلک واضح رہی۔ وہ جو کے ساتھ کھڑی رہیں جب انہیں اپنی تقریر میں نقل کرنے کے الزامات کے تحت اپنی پہلی صدارتی مہم سے دستبردار ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی والدہ کی تقلید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ اپنے والدین کی وفات پر زرا بھی نہیں روئیں۔ جل نے اس کو طاقت کے طور پر دیکھا۔ انہوں نے اپنی یادداشت میں لکھا: ’میں نے فوری طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں کبھی بھی اپنے جذبات کو خود پر حکمرانی نہیں کرنے دوں گی۔‘

جل بائڈن نے لکھا، ’بطور سیاسی بیوی، میں نے محسوس کیا ہے کہ میرا غیر جذباتی پن اکثر میرے لیے اچھا کام کرتا ہے۔ سال 1988 میں جو کی پہلی صدارتی مہم تاریک نظر آنے لگی، لوگ ہماری ٹیم میں دراڑیں ڈھونڈتے رہے۔ ہم سب نے سخت سکروٹنی محسوس کی، لیکن میں نے کمزوری ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔‘

یہ 2020 انتخابات کی دوڑ کے اوائل میں ظاہر ہوا جب متعدد خواتین نے جو بائیڈن پر انہیں نامناسب طریقے سے چھونے کا الزام لگایا۔ امیدوار نے نامناسب عمل سے انکار کیا لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ اب معاشرتی اصول بدل چکے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ بھی بدل جائیں گے۔

جل بائیڈن نے ان کا دفاع کیا۔

انہوں نے ’ اے بی سی‘ کے پروگرام ’گڈ مارننگ امریکہ‘میں بات کرتے ہوئے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ کتنے ہی لوگ، مرد اور خواتین، ان سے ملتے ہیں ان میں تشفی اور ہمدردی تلاش کرتے ہیں، لیکن آگے جاتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ انہیں اس کا بہتر فیصلہ کرنا ہوگا کہ جب لوگ ان سے ملتے ہیں ہیں تو وہ انہیں کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘

اپنی زندگی کا وہ وقت یاد کرتے ہوئے جب ان کے ساتھ نامناسب سلوک کیا گیا اور وہ خاموش رہیں، انہوں نے بتایا: ’مجھے خاص طور پر یاد ہے یہ ۔۔۔ وہ ایک نوکری کے لیے انٹرویو تھا۔ اگر آج ایسا کچھ ہوا ہوتا تو میں مڑ کر پوچھتی کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟‘

وہ اپنے شوہر کا ساتھ دینے کو ہمیشہ تیار رہتی ہیں اور بعض اوقات وہ ایسا جسمانی طور پر بھی کرتی ہیں۔

فروری 2020 میں نیو ہیمپشائر میں ایک شخص نے جو بائیڈن کے قریب رسی سے الگ کی گئی جگہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ایک لمحے میں جل بائیڈن اپنے شوہر کے پیچھے سے اس شخص کے پاس پہنچیں اور اس کے گرد اپنے بازر ڈالتے ہوئے اس کا رخ موڑ کر وہاں سے دور لے جانے میں مدد کی۔

ایک ماہ بعد لاس اینجلس میں انہوں نے اسی طرح ایک مظاہرہ کرنے والے شخص کو روک لیا اور پھر اس کے بعد ایک دوسرے شخص کو بھی روکا جو اس وقت سٹیج پر چڑھ گیا جب جو بائیڈن اپنی سپر ٹیوزڈے انتخاب میں کامیابی کی تقریر کر رہے تھے۔

جب پہلا شخص ایک پوسٹر لہراتے، چیختے چلاتے ہوئے آیا تو جل بائیڈن اس شخص اور اپنے شوہر کے درمیان آ گئیں۔ انہوں نے دوسرے شخص کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اور اس بار مداخلت کو روکنے کے لیے انہوں نے اپنے بازو بلند کر رکھے تھے۔

دونوں کو جو بائیڈن تک پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ 27 سیکنڈ کے دورانیے کے اس واقعے کے بعد جل یہ کہتے ہوئے مڑیں: ’ ہم ٹھیک ہیں،‘ اور جو بائیڈن کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اس پروگرام کو جاری رکھیں۔ اس کے بعد بائیڈنز نے کہا کہ انہیں سیکریٹ سروس کے تحفظ کی ضرورت ہے اور وہ انہیں جلد ہی مل گیا۔

جو بائیڈن کہہ چکے ہیں: ’مجھے جل کی فکر ہے۔‘

وہ کرونا کی وبا کے دوران بھی ان کی حفاظت کرتی رہی ہیں۔

پانچ اکتوبر کو ڈیلاوئر کے نیو کیسل ایئرپورٹ پر وہ اپنے شوہر کو میڈیا کے ارکان سے محفوظ فاصلے پر لے گئیں جب وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران میامی کے سفر سے قبل طیارے کے باہر گفتگو کر رہے تھے۔

بہت سارے امریکی خاندانوں کی طرح بائیڈنز نے بھی گذشہ سال تھینکس گیونگ کو مختلف انداز میں منایا۔  وہ معمول کے مطابق میساچوسیٹس کے ننیٹوکٹ آئی لینڈ جانے کے بجائے اپنے گھر رہیوبوتھ، ڈیلاوئر میں ہی رہے۔ بائیڈنز نے اپنی شادی کے اوائل میں ہی تھینکس گیونگ کے لیے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ننیٹوکٹ جانا شروع کیا تھا جو ان کی سال ہاسال روایت بن گئی تھی۔

 2020 میں معمول کے وسیع و عریض خاندانی دسترخوان کے بجائے ان کی بیٹی اور ان کے شوہر ڈیلائوئر میں واقع ان کے گھر میں اکلوتے مہمان تھے۔ شام کے ایجنڈے میں بڑے گروپ کے ساتھ زوم کال شامل تھی۔

یہ بھی دیکھیں کہ جل بائیڈن چیزوں کو کیسے ہلکا پھلکا رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں دکھائی جانے والی ایک ویڈیو میں ان کی پوتی نومی کا کہنا تھا: ’وہ آپ کی معمول کی دادی نہیں ہیں۔‘  انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے جل بائیڈن نے کرسمس کی صبح پانچ بجے انہیں ’سول سائکلنگ‘ کے لیے اٹھایا۔

نومی نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ مزید کہا: ’وہ بہت مزاحیہ اور شرارتی ہیں۔ جب وہ چہل قدمی کرنے جاتی ہیں تو کبھی کبھی انہیں ایک مردہ سانپ مل جاتا ہے ، اور وہ اسے اٹھا کر ایک بیگ میں رکھ لیتی ہیں اور کسی نہ کسی کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین