عمر شیخ نے قتل میں ’معمولی‘ کردار کا اعتراف کیا: پرل خاندان کے وکیل

پاکستان میں قتل کیے جانے والے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل کا کہنا ہے کہ دو ہفتے قبل سپریم کورٹ میں عمر شیخ کا لکھا ایک خط جمع کروایا گیا ہے جس میں انہوں نے قتل میں ’معمولی‘ کردار کا اعتراف کیا ہے۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ رپورٹر کو 23 جنوری 2002 کو اغوا کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی لاش کراچی کے ایک علاقے سے ملی تھی۔ (اے ایف پی فائل)

پاکستان میں قتل کیے جانے والے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل کا کہنا ہے کہ پرل کے قتل میں سزا اور بعد میں بریت حاصل کرنے والے عمر شیخ نے ان کی موت میں ’چھوٹا سا‘ کردار ادا کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق احمد سعید عمر شیخ کے 2019 میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک خط، جس میں انہوں نے وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر کی موت میں ’کچھ حد تک‘ ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے، کو تقریباً دو ہفتے قبل پاکستان کے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔

شیخ عمر کے وکیلوں نے اپنے مؤکل کی جانب سے لکھے گئے خط کی بدھ تک تصدیق نہیں کی تھی۔

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے عمر شیخ کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہی ہے۔ یہ اپیل پرل کے اہل خانہ اور پاکستانی حکومت نے دائر کی تھی۔

 

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ رپورٹر کو 23 جنوری 2002 کو اغوا کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی لاش کراچی کے ایک علاقے سے ملی تھی۔

پرل فیملی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا ہے کہ عمر شیخ کے خط میں یہ ’اعتراف‘ اس کیس میں ’ڈرامائی پیش رفت‘ ہے جس کے بعد انہوں نے شیخ کی موت کی سزا بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

اے پی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا: یہ (پیش رفت) بہت اہم ہے کیونکہ پچھلے 18 سالوں سے عمر سعید شیخ کا یہ موقف ہے کہ وہ ڈینیئل پرل کو نہیں جانتے تھے اور نہ ہی کبھی ان سے ملے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل صدیقی نے کہا: ’پہلے اس کیس میں وہ مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے تھے لیکن اب ہاتھ سے لکھے خط میں انہوں نے کم از کم ایک محدود کردار کا اعتراف کیا ہے۔‘

وکیل نے مزید کہا: ’انہوں نے بریت کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ اپنا جرم قبول کیا لیکن انہوں نے سزا میں کمی کا مطالبہ کیا۔‘

خط، جس کی ایک کاپی اے پی نے دیکھی ہے، میں شیخ لکھتے ہیں کہ ’اس معاملے میں میرا کردار نسبتاً معمولی تھا، جس کی وجہ سے مجھے سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔‘

 

انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ پرل کے قاتل کو جانتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عسکریت پسند عطا الرحمٰن عرف نعیم بخاری کا نام لیا جن کو کراچی میں پیرا ملٹری بیس پر حملے کے سلسلے میں پھانسی دی جا چکی ہے۔

25 جولائی 2019 کو لکھے گئے خط میں شیخ نے مطالبہ کیا کہ انہیں اس معاملے میں اپنے اصل کردار کو واضح کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ان کی سزا کو کم کیا جا سکے۔

دوسری جانب شیخ کے وکیل محمود اے شیخ نے کہا کہ ان کے موکل نے ’دباؤ‘ میں یہ خط لکھا تھا اور انہوں نے سختی سے انکار کیا ہے کہ وہ پرل کو جانتے تھے یا ان کا پرل سے کوئی تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے موکل نے جیل میں اپنی حالت کو ’جانور کی زندگی سے بھی بدتر‘ قرار دیا تھا اور انہوں نے یہ خط اس لیے لکھا تھا تاکہ مقدمے کی سماعت ممکن ہو سکے تاہم اس میں انہوں نے کسی جرم کا اعتراف نہیں کیا ۔

توقع کی جارہی ہے کہ اس ہفتے اس اپیل پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

پرل کے فیملی وکیل نے کہا کہ وہ شیخ عمر کی جانب سے اعتراف کے بعد فوری فیصلے کی توقع کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس (خط) نے ہر چیز کو تبدیل کر دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان