’پتلی نہیں ہو گی تو شادی کیسے ہو گی؟‘

ضروری نہیں ہوتا کہ آپ جب ملیں تو اوپر سے نیچے تک معائنہ کرنے کے بعد اگلے کو پتلے یا موٹے ہونے کی مہر لگانا اپنا فرض سمجھیں۔ جو جیسا ہے، ویسے ہی قبول کریں۔ 

(انڈپینڈنٹ اردو گرافکس)

میری اس پوسٹ کا عورت مارچ سے کوئی تعلق نہیں، لیکن میں ایک موضوع پر یہاں کھل کر بات کرنا چاہوں گی جو صدیوں سے زیر بحث ہے اور شاید کبھی اس پر بات چیت ختم بھی نہ ہو۔ 

میں اور میری جیسی بہت سی خواتین، جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ دبلی پتلی نہیں، روزانہ کتنے ہی لوگوں کے تکلیف دہ تنقیدی وار کا نشانہ بنتی ہیں۔ ’کم کھایا کرو،‘ ’دکھتا ہی ہے کہ کتنا کھاتی ہو،‘ ’فلاں ڈائٹ پلان فالو کرو بس دیکھ لینا ایک ماہ میں ہی فرق نظر آنے لگ جائے گا،‘ ’واک اور ورزش کیا کرو،‘ ’ہر وقت بیٹھی نہ رہا کرو،‘ ’کپڑے تنگ ہوگئے ہیں بس کھانا کم کر دو،‘ اور اس طرح کے بہت سے جملے ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔

پھر بھی اگر سکون نہ آئے اور مزید تکلیف دینے کا ارادہ ہو تو اپنائیت کے لبادے میں اوڑھے یہ جملے ’پتلی نہیں ہو گی تو شادی کیسے ہو گی؟‘ ’ہممم۔۔۔ پتلی نہیں ہو نا، اسی لیے رشتہ نہیں ہو رہا،‘ ’ہاہ ہائے۔۔۔ پتلی نہیں ہو گی تو کوئی پسند کیسے کرے گا؟‘ رہی سہی تمام کسر نکال دیتے ہیں۔

اب مجھے معلوم ہے کہ اتنی سی تحریر پڑھنے پر ہی سو کالڈ ہمدرد لوگوں کی لائنیں لگ جائیں جو کچھ اس طرح سے تسلی دیتے نظر آئیں گے، ’اووو۔۔۔ کوئی بات نہیں یار دل پر نہ لیا کرو،‘ ’تم ایسے لوگوں کو شٹ اپ کال دیا کرو نا،‘ ’تم جیسی ہو، ویسی ہی اچھی ہو، ان لوگوں کی باتوں کو اگنور کیا کرو۔۔۔‘

کمال کی بات تو یہ ہے کہ یہی تسلی کا دامن تھامنے کا درس دینے والے لوگ پیٹھ پیچھے ہم جیسی خواتین پر تنقیدی وار کر رہے ہوتے ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اس حوالے سے میں کچھ چیزیں واضح کرنا چاہتی ہوں۔ 

  • کوئی کتنا کھاتا ہے اور کتنا نہیں، اس پر آپ کی رائے درکار نہیں کیونکہ کوئی آپ سے لے کر نہیں کھا رہا۔ 
  • کوئی کھانے پینے کی وجہ سے ہی موٹاپے کا شکار ہے، یہ رائے آپ کیسے قائم کر سکتے ہیں؟
  • جو جیسا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ آپ کے لیے تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن اس کے لیے وزن کم کرنا بہت سے مراحل طے کر کے منزل تک پہنچنا ہے۔ 
  • کیا آپ کو علم بھی ہے کہ موٹاپے کی وجوہات صرف کھانے پینے تک محدود نہیں؟ آپ کیسے کہہ سکتے کہ سامنے والا زیادہ کھانے کی وجہ سے ہی موٹا ہوا ہے؟
  • تنقید سے پہلے ایک بار اپنے آپ کو اگلے کی جگہ پر رکھ کر سوچ لیا کریں کہ اگر اس کی طرح آپ ہوتے تو پھر آپ کی رائے کیا ہوتی؟ 
  • ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ رشتے آسمانوں پر طے ہوتے ہیں، عورت کے منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے نہیں۔ اگر آپ پھر بھی ایسا سوچتے ہیں تو شاید آپ کی سوچ محدود ہے۔
  • ضروری نہیں ہوتا کہ آپ جب ملیں تو اوپر سے نیچے تک معائنہ کرنے کے بعد اگلے کو پتلے یا موٹے ہونے کی مہر لگانا اپنا فرض سمجھیں۔ جو جیسا ہے، ویسے ہی قبول کریں۔ 

ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کسی کو کوئی اگر وزن زیادہ ہونے کے باوجود کوئی پسند کر لے تو قریب ترین لوگ بھی یہ سوال سامنے رکھتے نظر آتے ہیں کہ ’اچھا؟ یہ کیسے کو گیا؟ کوئی تو بات ہو گی جو اسی طرح ہی پسند کر لیا۔ اللہ خیر رکھے، لوگ صحیح ہوں بس۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چلیں یہ بات تو صرف موٹاپے کے شکار افراد سے متعلق ہوئی نا! یہاں تو دبلے پتلے لوگوں کو کوئی نہیں بخشتا۔ ’بہت کمزور ہو گئی ہو، کھایا پیا کرو،‘ ’یہ کیا ہر وقت کی ڈائٹنگ وائٹنگ، کچھ جان بناؤ، سوکھ کر کانٹا ہو گئی ہو۔ چہرے سے رونق ختم ہو گئی ہے۔‘

میرا سوال یہ ہے کہ آخر ہر بات آخر کھانے پینے پر آ کر ہی کیوں رکتی ہے؟

میں جانتی ہوں اس تحریر پر بھی کئی لوگ تنقید کریں گے لیکن میں نے آج بہت ہمت کر کے اس پر کھل کر بات کرنے کا ارادہ کیا جس کا مجھے کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ شاید ایسے ہی لوگ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کو پرکھنے کا نظریہ تبدیل کر سکیں۔

ہاں! ایک اور بات۔ مجھے یا میری جیسی خواتین کو اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کے نتیجے میں کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔ 

مزید یہ کہ میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ یہ موضوع اور اس حوالے سے شکار ہونے والے افراد میں صرف خواتین ہی نہیں، مرد بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ترس مت کھائیں۔ سوچ بدلیں، ہمت کریں، ہم جیسی خواتین کو بھی معاشرے کا حصہ اور انسان سمجھتے ہوئے قبول کریں!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ