کویت میں ’الو کی ساکھ‘ بہتر بنانے کی کوشش

ایشیائی معاشرے میں الو کا چپٹا چہرہ ’موت، غربت اور جادو‘ کی نشاندہی کرتا ہے لیکن یونانیوں کے نزدیک اس کے برعکس یہ ’حکمت‘ کا پرندہ ہے۔

اس مہم کی شروعات پانچ سال قبل 2016 میں کی گئی تھی (رضاکار ٹیم)

اس مہم کا مقصد اس پرندے سے جڑی خرافات کو ختم کرنا اور لوگوں کو اس کی ماحولیاتی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ خلیجی ممالک میں رہنے والے افراد اور عربوں کی ثقافت میں بہت سی منفی کہانیاں اور افسانے ’الو‘کے گرد لپٹے ہوئے ہیں۔

مگر اب کویت میں ایک لڑکی نے الو کے بارے میں بنی ان کہانیوں کو تبدیل کرنے کے لیے مہم شروع کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’الو کے بارے میں بہت غلط فہمیاں ہیں۔ یہ ماحول کی حفاظت کرتے ہیں اور انسان کے دوست ہیں۔‘

ایشیائی معاشرے میں الو کا چپٹا چہرہ ’موت، غربت اور جادو‘ کی نشاندہی کرتا ہے لیکن یونانیوں کے نزدیک اس کے برعکس یہ ’حکمت‘ کا پرندہ ہے کیوں کہ اس وقت اس کی تصویر کو کچھ سکوں اور مجسموں سے سجایا گیا تھا۔

اس مہم کی شروعات پانچ سال قبل 2016 میں کی گئی تھی۔

جہان الکنداری، جو رضاکاروں کی ٹیم کی سربراہ اور دو پرندوں کی مالک ہیں، کو اپنے بچپن کے سال یاد آتے ہیں، جب ان کے پاس ’نقش شدہ الو تھا۔‘

وہ کہتی ہیں، ’میں نے اسے اپنے بچپن سے ہی پیار کیا تھا، جب میں بھی اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ مجھے اس کی بڑی آنکھیں اور ان کے کھڑے ہونے کا شاندار انداز ان کی غیر معمولی اور مخصوص ساخت کے ساتھ پسند تھا۔‘

جہان الکنداری ایک کنڈرگارڈن ٹیچر ہیں اور خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنی مہم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کو کچھ پسند ہے تو، آپ کا ہمیشہ اس کے بارے میں مثبت نظریہ ہوگا۔‘

’مثبت بات ہاں، ہم نے متاثر کرنا شروع کیا ہے اور پرندے کے بارے میں بہت سے خیالات کو تبدیل کیا ہے۔‘

جہان الکنداری نے مزید کہا کہ اس مہم کے آغاز کی ایک وجہ، جس کی بنیاد پانچ کویتی نوجوانوں نے رکھی تھی، ’الوؤں کو ناپید ہونے سے بچانا اور ان کے بارے میں شعور پھیلانا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرب ’نیشنل جیوگرافک‘ میگزین نے کویت کی اس ٹیم کو ’دنیا میں تعداد اور تنوع کے لحاظ سے الو کی نسل بچانے والی سب سے بڑی ٹیم کے طور پر بیان کیا ہے۔

جہان الکنداری کہتی ہیں کہ ’یہ ہماری مہم کا پہلا پھل ہے، میڈیا اور لوگوں نے بھی پرواہ کرنا شروع کر دیا ہے۔‘

ان کے مطابق الوؤں کی قیمت چار سو  سے پانچ سو کویتی دینار ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’اگر پرندے کم ہیں تو اس کی قیمت بھی دوگنی ہوسکتی ہے۔‘

اس مہم کے دوران جس کے بازگشت خلیج کے مقامی سٹیشنوں اور اخبارات کے ذریعہ دیکھی اور پڑھی جاسکتی ہے، یہ رضاکار عوامی مقامات، سکول، سرکاری تقریبات اور دیگر میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ممبروں کی تعداد 30 تک پہنچ چکی ہے، جو ’امپورٹڈ‘30 سے زائد پرندوں کے مالک ہیں۔

دارالحکومت میں رہائش پذیر ایک نوجوان احمد العتیہ نے انڈپینڈنٹ عربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کویت میں ان کا شکار نہیں کر سکتا۔‘

’مجھے اپنی زندگی میں ان کی موجودگی پر فخر ہے۔ میں ان سے محبت کرتا ہوں اور میں ان کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔‘

اس کویتی نوجوان نے اپنا سب سے مہنگا الو سات سو کویتی دینار  میں حاصل کیا تھا۔

یہ ایک عجیب پرندہ ہے جو اپنے کانوں سے دیکھتا ہے، جیسا کہ الو اپنی آواز سے ریکارڈ وقت میں کسی چیز کی شناخت کرسکتا ہے۔ اس کی گردن لچکدار ہوتی ہے، یہ 280 ڈگری گھوم سکتی ہے۔

اس کے بارے میں تشریحات اور اعتقادات ایک تہذیب، جغرافیے اور ایک دوسری تہذیب سے مختلف ہیں، کیوں کہ پرانے عرب معاشرے نے اس کی اداس آواز کو مردہ جسم پر ماتم کرنے سے تعبیر کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین