بنوں: ’ایک بیٹے کی لاش ملی دوسرا حراست میں ہے‘

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں چار نوجوانوں کے قتل کے خلاف مقامی قبائل کا احتجاجی دھرنا جمعرات کو پانچویں روز میں داخل ہوگیا۔

بنوں میں احتجاجی کیمپ کا ایک منظر (روفان خان)

’سعودی عرب میں محنت مزدوری کر کے چار سال بعد گھر آیا تو بیٹے کی لاش دیکھنے کو ملی۔ کس سے پوچھوں کہ میرا بیٹا کس جرم میں قتل کیا گیا؟ چار دن ہو گئے اب تک انصاف کی تلاش میں انہیں دفنایا نہیں تاکہ کم از کم ان کے روح کو تو انصاف تو مل سکے۔‘

یہ کہنا تھا ضلع بنوں کے زر ولی خان کا، جن کے 13 سالہ بیٹے عاکف اللہ کی مسخ لاش تین دن پہلے ایک ندی کے کنارے ملی۔ ان کو  قتل کرنے کے بعد دفن کر دیا گیا تھا۔

عاکف اللہ ان چار کم عمر نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو تقریباً 20 دن پہلے شکار کے لیے نکلے تھے لیکن لاپتہ ہوگئے۔ بعد میں ان کی مسخ لاشیں برآمد ہوئیں۔

زر ولی نے بتایا کہ ان کی کسی سے دشمنی نہیں۔ ’میں سعودی عرب میں تھا کہ مجھے اپنے بیٹے کے  قتل کا پتہ چلا تو واپس آ گیا۔‘

انہوں نے بتایا ’عاکف میرا چھوٹا بیٹا اور شکار کا شوقین تھا۔ وہ کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ شکار کے لیے جاتا رہتا تھا۔‘

زر ولی نے مزید بتایا کہ ایک بیٹا تو اس طرح بے دردی سے قتل کیا گیا جبکہ دوسرا بیٹا گذشتہ پانچ ماہ سے ریاستی اداروں کی حراست میں ہے، سعودی عرب سے واپسی کے بعد ان کو بھی نہیں دیکھا۔

انہوں  نے حکومت سے درخواست کی کہ ’میرے دوسرے بیٹے کو رہا کیا جائے۔ ایک بیٹا تو ہمیشہ کے لیے کھو دیا لیکن دوسرے کو کھونے کی طاقت مجھ میں نہیں۔‘

نوجوانوں کے قتل کے خلاف دھرنا

ان چار نوجوانوں کے قتل کے خلاف مقامی قبائل کا احتجاجی دھرنا جمعرات کو پانچویں روز میں داخل ہوگیا۔ پچھلے دو دن سے سرکاری اہلکاروں اور مقامی عمائدین کے درمیان مسلسل مذاکرات ناکام رہے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر جعمرات تک مطالبے تسلیم نہ ہوئے تو بنوں اور اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ انہوں نے میتیں سڑک پر رکھی ہوئی ہیں اور انہیں دفنانے سے انکار کر رہے ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ ’ذمہ دار‘ سرکاری اہلکاروں کے خلاف درج ہو اور ’گڈ و بیڈ طالبان‘ کا خاتمہ کرکے امن و امان قائم کیا جائے۔

ضلع بنوں کے ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ برآمد شدہ لاشوں میں ایک کو ذبح، دوسرے کو گولی مار کر اور باقی دو کو پتھر مار کر قتل کیا گیا۔  اس واقعے کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ہو چکا ہے۔

یہ واقعہ بنوں کے علاقے جانی خیل میں پیش آیا ہے۔ جانی خیل پولیس سٹیشن  کے سربراہ عمیر خان نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ قتل ہونے والوں کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔

دھرنا منتظیمن میں شامل لطیف وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے حکومت کے سامنے جو مطالبات رکھے ہیں وہ بہت آسان اور جائز ہیں لیکن ابھی تک حکومت انہیں ماننے میں سنجیدہ نہیں۔

لطیف نے مطالبات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ قتل ہونے والوں کو شہدا پیکج دیا جائے اور واقعے کی ایف آئی آر ضلع بنوں کے یک کرنل کے خلاف درج کی جائے۔'

ان کے مطابق 24 مارچ کو دھرنا منتظمین کی حکومتی نمائندوں سے ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں حکومت نے دو مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم اس واقعے کا مقدمہ ایک کرنل کے خلاف درج کرنے سے انکار کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان بھی گذشتہ روز دھرنے میں شرکت کے لیے پہنچے۔ انہوں نے دھرنے سے خطاب میں بتایا کہ اے این پی دھرنا منتظمین کے مطالبات کی پھرپور حمایت کرتی ہے اور تب تک دھرنا منتظمین کے ساتھ کھڑے ہوں گے جب تک انہیں تسلیم نہیں کر لیا جاتا۔

ایمل نے بتایا کہ ’بنوں میں چار دن سے وہ اپنے پیاروں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے بارش میں دھرنے دے رہے ہیں لیکن سب خاموش ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک جانوروں کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن اس صدی میں پختون اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘

چار نوجوانوں کی قتل پر پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے اپنے ایک بیان میں صوبائی اور وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ دھرنے کا نوٹس لے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی ریاست کو چاہیے کہ وہ شہریوں کی جانوں کی تحفظ یقینی بنائیں اور خصوصاً ایسے علاقے میں جو غیر ریاستی عناصر کے نشانے پر ہیں۔‘

نوجوانوں کی قتل کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

پولیس کی جانب سے اس مقدمے میں چار دنوں میں پیش رفت کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے بنوں پولیس کے سربراہ عمران شاہد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان